روزمرہ استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کو ہوشربا مہنگائی، کمر توڑ مہنگائی اور قوت استعدادسے باہر یا ایک ناقابل برداشت بوجھ قرار دے کر آبادی کا کم وبیش ہر طبقہ سراپا احتجاج نظرآتا ہے، پرنٹ میڈیا ، سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اس حوالہ س ے آسمان سر پر اُٹھانے میںکوئی دقیقہ فروگذاشت نہیںہونے دے رہا ہے لیکن کچھ شعبے ایسے ہیںجو کھلم کھلا لوٹ، بازار کا استحصال اور اجارہ دارانہ ذہنیت کا مسلسل ارتکاب تو کررہے ہیں لیکن ان کے اس استحصال کے خلاف کسی بھی حلقے سے کوئی آواز سامنے نہیں آتی۔
ان دوسرے شعبوں کا تعلق ملک کی دوا ساز کمپنیوں، ہوائی جہاز کمپنیوںوغیرہ کی من مانیوں، لوٹ اور استحصالانہ طرزعمل سے ہے۔ حکومت کی مختلف وزارتیں اوران کی ماتحت اکائیاں سب کچھ دیکھ رہی ہے بلکہ ان کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہورہاہے لیکن عوام کے حقوق اور وسیع ترمفادات میںدیکھی ان دیکھی کی جارہی ہے بلکہ کچھ معاملات میں تو لنگڑے استدلال پیش کرکے ان کا ایک طرح سے دفاع ہی کیاجارہاہے۔
ملک کی دوا ساز کمپنیوں کے بارے میں کہاجاسکتاہے کہ ان کا سالانہ ٹرن اور ہزاروں کروڑوں میں ہیں، یہ کمپنیاں بے شک ٹیکس بھی اداکررہی ہیں لیکن معاملہ یہی پر ختم نہیں ہوتا ہے۔ یہ دوا ساز کمپنیاں انڈین آئیل، بھارت گیس، ہندوستان پیٹرولیم وغیرہ کے نقش قدم پر چلتے ہر دو ماہ …تین ماہ بعد ادویات کی قیمتوں میں دس …بیس فیصد اوسط سے اضافہ کرتی جارہی ہیں۔ عام بیماریوں کے لئے درکار ادویات کی قیمتوں میں بھی اضافہ کا یہ عمل مسلسل ہے جبکہ زندگی بخش ادویات کی قیمتوں میں بھی یہ اضافہ مسلسل طور سے کیاجارہاہے۔
حیرت تو اس بات پر ہے کہ حکومتی اداروں کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ اس متواتر اضافہ کا کوئی معقول جواز نہیں لیکن خاموشی اختیار کی جارہی ہے۔ حکومتی وزارتوں او ران کی ماتحت متعلقہ اکائیوں اور اداروں کا یہ طرزعمل کیا عوام دُشمنانہ نہیں،ا گر حکومت سمجھتی ہے کہ ایسے اضافے معقول اور جائز ہیں تو اس کیلئے کوئی قابل قبول جواز عوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت کیوںنہیں سمجھی جارہی ہے جبکہ اس یکطرفہ من مانی کی نہ صرف اجازت دی جارہی ہے بلکہ نظریں چرانے کا سا رویہ اور اپروچ بھی اختیار کیاجارہاہے۔
عوام پر ڈالا جارہا ہے یہ بوجھ درحقیقت لوٹ اوراستحصال کا ایک روپ ہے جس کو سسٹم خود درپردہ پروان چڑھاکرحوصلہ افزائی بھی کررہاہے اور سرپرستی بھی کررہاہے۔ دراصل جو سرمایہ اس طریقہ کاروبار کی وساطت سے تجوریوں کی زینت بنایاجارہاہے وہ یہ کمپنیاں اپنی روزمرہ کی عیاشیوں کی تکمیل پرصرف کررہی ہیں۔
یہ عیاشاں کسی ایک سرمایہ دار بزنس کلاس تک محدود نہیں ، بلکہ ہر وہ بزنس کلاس اس لعنت کا پروردہ بن چکا ہے۔ ان عیاشیوں کے قصے کہانیاں وقف وقفے سے سامنے آہی جاتی ہیں کبھی ہندوستان کی سرحدوں سے باہر دوسرے ممالک میںشادی بیاہ کی تقریبات کے حوالہ سے یا یوم پیدائش کی تقریبات کے حوالہ سے بھاری بھرکم اخراجات کی صورت میں ۔ اس حوالہ سے ابھی ایک خاتون کے یوم پیدائش کی تقریب پر زائد از دو سو کروڑ روپے کی خطیرسرمایہ کاری کی گئی۔ اس خاتون کی کمپنی کے زیر کنٹرول میڈیا نے اس تقریب پر سرمایہ کاری کا بڑھ چڑھ کر حوالہ دیا۔
غالباً ایسی سرمایہ کاری کو دیکھ کر وزیراعظم نے سرمایہ کاروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنی تقریبات کا اہتمام اور انعقاد ملک کے اندر ہی کریںتاکہ سرمایہ ملک سے باہر نہ جاسکے۔ وزیراعظم کے اس مشورہ سے واضح ہوتا ہے کہ دوسرے الفاظ میں انہوںنے بھی اس نوعیت کی عیاشیوں پر اپنی ناپسندیدگی کا دبے الفاظ میں اظہارکیا ہے۔ کھل کر کرتے تو مناسب رہتا۔
اسی طرح ملک کی ہوائی جہاز کمپنیوں کو بھی مسافروں کی سفر کی مجبوریوں کا ناجائز بلکہ بھر پور فائدہ اُٹھانے کی کھلی چھوٹ دی جارہی ہے۔ اس تعلق سے دہلی …سرینگر …جموں اورلداخ روٹوںکے حوالوں سے لوٹ اور استحصال اب روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔یہ کرایہ بعض اوقات ۸۰؍ہزارروپے تک بھی پہنچایا اور وصول کیاجاتارہاہے۔ ملک کی سول ایوی ایشن وزارت اور دوسرے متعلقہ اداروں کے ساتھ یہ معاملہ بار بار اُٹھایا جاتارہا ہے لیکن کسی کمپنی کو اس کی من مانی سے باز نہیںرکھا جاسکا۔ برعکس اس کے یوٹی ایڈمنسٹریشن کو ہی مشورہ دیاجارہا ہے کہ وہ اپنے ٹیکس وغیرہ کی شرحیں گھٹادیں۔
ہوائی جہاز کمپنیوں کے اس مخصوص طرزعمل نے جہاں جموں وکشمیر کے اوسط شہریوں کا سفر مشکل ترین اور مہنگا بنادیا ہے وہیں جموں وکشمیر کی سیاحت پر آنے والے خواہش مند سیاحوں کیلئے جہاز کا یہ سفر بھاری پڑجاتا ہے۔جہاز کمپنیوں کا یہ طرزعمل کشمیرکی سیاحت کو حد سے زیادہ نقصان پہنچانے کا موجب بن رہا ہے۔ یہ جہاز راں کمپنیاں اب سالہاسال بلکہ کئی دہائیوں سے اسی من مانی طرزعمل کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ اگرا ب تک کسی مرکزی حکومت نے کوئی تدارکی قدم اُٹھایا ہوتا تو صورتحال یقیناًمختلف ہوتی لیکن چونکہ ایسا نہیں کیا گیا لہٰذا ان کی من مانیوں اور استحصالانہ طریقہ کار کی قیمت جموںوکشمیر کے عوام اور متوقع سیاحوں کو بھگتنا پڑرہی ہے۔
ان جہازکمپنیوں کی من مانیاں اب اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ پروازوں میںکسی وجہ سے تاخیر یا پروازوں کارُخ کسی تیسری سمت کی جانب کرنے کے نتیجہ میں سفر کرنے والے مسافروں کو نئی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرناپڑرہاہے۔ نہ قیام وطعام کا بندوبست اور نہ دوسری کوئی سہولت، ایسا محسوس ہورہاہے کہ جیسے ہوائی جہاز کمپنیاں اور ان کا عملہ ان کے طیاروںمیں سفر کرنے والے والوں کو اپنا غلام یا بندھو مزدور تصور کرکے ان کے عزت وقار کو اپنی جوتیوں کی نوک پر تصور کررہے ہیں۔ مسافروں کی طرف سے جو ردعمل اس ’حسن سلوک‘ کے حالیہ دنوں میںسامنے آیا وہ فطری اور واجبی ہے، یہ ردعمل کمپنیوں کے لئے چشم کشا ہونا چاہئے لیکن مثل مشہور ہے کہ چور چوری سے جائے ہیر ا پھیری سے نہیںکے مصداق یہ لوگ اپنی خو تبدیل نہیںکریں گے۔