حکومت اور ایڈمنسٹریشن کے اقدامات اور فیصلوں کے خلاف احتجاج کشمیر میں ایک روایت اور اس سے کہیں زیادہ فیشن بن چکا ہے۔چاہئے فیصلہ یا اقدامات کا تعلق کسی شعبے کے حوالہ سے جدیدیت کے خطوط پر معقولیت لانے سے ہو یا عمل آوری کو یقینی بنانے سے ہو۔ احتجاج کرنے والوں کی عموماً یہ شکایت ہوتی ہے کہ اس فیصلے یا اقدام کو عملی جامہ پہنانے سے روزگار متاثر ہوگا اور وہ بے روزگار ہوسکتے ہیں۔ البتہ اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بعض معاملوں میں شکایت کرنے یا احتجاج کرنے والوں کی دلیل یا وزن اور شکایت زمینی حقائق پر مبنی ہوتی ہے۔
اس حوالہ سے کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ اپنے حقوق کے حصول اور مفادات کا ہر ممکن طریقے اور ہر سطح پر تحفظ یقینی بنانا ہر شہری کا پیدائشی حق ہے لیکن اس حق کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے یہ ضروری نہیں کہ سڑک پر آنے کا آپشن استعمال کیا جائے۔ اپنی آواز کو حکام بالا تک پہنچانے کے اور بھی کئی راستے ہیں جن میں متعلقہ حکام کے روبرو بیٹھ کر مسائل کا آبرمندانہ حل تلاش کرنا، میمورنڈم کی صورت میں اپنے مطالبات پیش کرکے اور مشاورت یا تجاویز کے تعلق سے اپنا مدعا بیان کرنا بھی شامل ہے۔
لیکن کشمیرمیں یہ روایت اب روزمرہ کا معمول بن چکی ہے کہ آواز بلند کرنے کیلئے پریس کالونی میں آکر خیمہ زن ہوکر ہم کیا چاہتے اور زندہ باد، مردہ باد کے نعرے بلند کئے جائیں۔ اگر چہ یہ ایک بے حد حساس جگہ ہے اور سکیورٹی سے جڑا معاملہ بھی قدرے ہے لیکن پریس کالونی میں خیمہ زن ہونے کی روایت کو حرف آخر کے طور تصور کرنا کہ وہاںپہنچ کرنعرہ بازی کرنے سے ہی آواز حکام تک پہنچ سکتی ہے یہ ایک غلط مفروضہ ہے۔ ضلع سطح پر ضلع کا سربراہ موجود ہے اور لوگ اپنی شکایات اور مسائل کا حل تلاش کرنے کی سمت میں ضلع سربراہ سے آسانی سے ملاقی ہوسکتے ہیں جو اپنے اختیارات اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ضلع کی متعلقہ اتھارٹی کو کم سے کم وقت میں طلب بھی کرسکتا ہے۔
اس آپشن اور راستے کے علاوہ کمشنر سیکریٹری سطح کے آفیسران بھی ضلع سطح پر عوامی شکایات کا ازالہ کرنے ، مسائل سننے اور ان کاحل تلاش کرنے کیلئے ایک تواتر کے ساتھ دربار منعقد کرتے رہتے ہیں، ان درباروں کے دوران لوگوں کی بات سنی ان سنی نہیں بلکہ سن کر ان کا ازالہ بھی کیاجارہاہے اور پھر وقت گذرے متعلقہ اتھارٹی سے عمل آوری کے تعلق سے فیڈ بیک بھی طلب کیاجارہاہے۔
لوگوں کے معاملات کا موقعہ پر جائز ہ لینے کیلئے حکومت نے حالیہ چند برسوں کے دوران بیک ٹو ولیج پروگرام بھی منعقد کئے۔ ان سارے اقدامات کا براہ راست تعلق عوام کو درپیش مسائل اور ان کاباوقار اور اطمینان بخش حل تلاش کرنے سے ہی ہے۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ ان سے باہر بھی معاملات اور واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جو کسی نہ کسی حوالہ سے حکام کی توجہ کا تقاضہ کرتے ہیں۔ غالباًیہی وجہ ہے کہ کسی حکومتی فیصلے یا ایڈمنسٹریشن کے کسی اقدام سے متاثر ہوکر متاثرین سڑکوں پر آتے ہیں اور اپنی بات رکھنا چاہتے ہیں۔ البتہ یہ بھی سچ ہے کہ کچھ فیصلے واقعی غیر معقول اور غیر ضروری محسوس کئے جاتے ہیں جن پر عمل آوری کی صورت میں آنے والے دنوں میں نقصان دہ اثرات بھی مرتب ہونے کے خدشات لاحق ہوجاتے ہیں لیکن ایسے فیصلے لینے والے ادارے ممکنہ منفی اثرات یا نقصان دہ نتائج کا فہم وادراک نہیں رکھتے جولوگوں یا متاثرین کو سڑک پر آنے کو اپنی آواز اور ناراضگی ظاہر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اسی طرح کا ایک احتجاج کرنے کیلئے دودھ پتھری کے سیاحتی مقام میں روزگار کے حصول کیلئے کام کرنے والے گھوڑے بان فی الوقت اتھارٹی کے ایک فیصلے کے خلاف سراپااحتجاج ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ جدید ساخت کی گاڑیوں کو معمو ر کیاگیا ہے جن کیلئے الگ سے روٹ کا تعین کیاگیا۔ لیکن اب یہ گاڑیاں جنہیں عرف عام میںآل پیرین وہیکل (ATVs)کہاجارہاہے پر اُس روٹ پر چل رہی ہیں جن میں سے کچھ گھوڑے بانوں کیلئے مخصوص تھے۔ دودھ پتھری ڈیولپمنٹ اتھارٹی پر الزام عائد کیاگیا ہے کہ وہ ایسا کرکے ہمارے روزمرہ کے روزگار کو جہاں چھین رہی ہے وہیں بے شمار مسائل بھی پیدا کررہی ہے۔
کیا ان گھوڑے بانوںکا احتجاج یا شکایت درست ہے یا ان کا یہ احتجاج بھی کشمیرمیں یہاں وہاں کئے جارہے احتجاجوں کے حوالوں سے فیشن یا روایت کا ہی محض تسلسل ہے۔ اسی طرح کشمیر کے تاجروں ، پرائیوٹ اسکولوں کے منتظمین اوران سے وابستہ دوسرے کئی ایک ادارے اور تنظیمیں بھی کچھ دنوں سے سراپا احتجاج ہیں۔ ان کا یہ احتجاج بورڈ آف سیکنڈری اسکول ایجوکیشن کے اُس فیصلے کا ردعمل ہے جس کا تعلق کشمیرمیںتعلیم اور تعلیمی نصاب کی مبینہ تبدیلی سے ہے۔
احتجاج کرنے والوں کاکہنا ہے کہ بورڈ کا یہ فیصلہ قومی تعلیمی پالیسی کے مطابق نہیں جبکہ ملک میں اور بھی ریاستیں اور یوٹی ہیں جہاں سرکاری سکول بھی کام کررہے ہیں اور پرائیوٹ تعلیمی ادارے بھی تعلیم وتربیت سے وابستہ ہیں۔لیکن کہیں پر بھی یہ نظر نہیں آرہا ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کو دبائو میں لایاجائے، ان اداروں میں تعلیمی نصاب کو لے کر ہنگامہ برپا کیاجائے یا معاملات ان پر مسلط کئے جائیں۔ ان احتجاجیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ ایک طرح کی کلچرل جارحیت ہے۔
قطع نظر احتجاجی کیا کہہ رہے ہیں اوران کے احتجاج میں کس حد تک معقولیت ہے یا واجبی ہے، جموںوکشمیر میں سرکاری سکولوں کی حالت کیا ہے، معیار تعلیم کیا ہے،کتنے سرکاری سکولوں کی اپنی عمارتیں نہیں ہیں، کتنے ہی سکول کشمیرہویا جموں کھلے آسمانوں کے نیچے ہیں اور بچوں کو کس قدر کم سے کم بُنیادی سہولیت دستیاب ہے۔ یہ کسمپری کسی سے پوشیدہ نہیں ، اس کے باوجود بورڈ کا فیصلہ یکطرفہ اور عاجلانہ محسوس کیاجارہاہے، جو نظرثانی کا فوری تقاضہ کررہا ہے۔ یہ معاملہ انانیت کا نہیں ہے بلکہ زمینی حقائق کا سنجیدگی سے فہم وادراک کا معاملہ ہے۔