کشمیر نشین سیاست دانوں کے بارے میں پورے اعتماد کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ وہ سراپا پیشہ ور بن گئے ہیں۔ قول ایک قرار ایک، ماضی کچھ تو حال بے حال، یعنی ماضی داغداری کے باوجود حال کے بارے میں دعویٰ کہ وہ عوام کیلئے مسیحا ہیں، نئے روپ میں اوتار ہیں، دودھ کے دھلے ہیں، دوسری روایتی پارٹیوں کی طرح جھوٹ پر جھوٹ بول کرعوام کو گمراہ نہیں کرتے بلکہ سچ بولتے ہیں اور سچ کے سوا کچھ نہیں بولتے۔
یہ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں کی یاداشت کمزور ہو لیکن اکثریت کی نہیں، گذشتہ چند ایک برسوں کے دوران سیاسی پارٹیوں اور ان سے وابستہ کچھ پیشہ ور سیاسی حضرات کم وبیش آئے روز ایک نئے نریٹو کے ساتھ جلوہ گر ہورہے ہیں ۔ ان کے حال کے بیانات ان کے ماضی کے بیانات سے ذرہ بھر بھی میل نہیں کھاتے ، نہ کوئی مسابقت رکھتے ہیں اور نہ ان کے سیاسی نظریے کے کسی بھی پہلو کے حوالہ سے ان میں سچ کا کوئی عنصر سننے ، پڑھنے یا دیکھنے کو ملتا ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ ان میں اس قدر تبدیلیاں آرہی ہیں؟
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مفادات کا ٹکرائو ، کچھ کا کہنا ہے کہ یہ واشنگ مشین کا کرشمہ ہے ، کچھ کا کہنا ہے کہ وقت کے حوالہ سے نظریہ ضرورت ، جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ چڑھتے سورج کی پوجا ہے۔ بہرحال جو کچھ بھی ہے حالیہ ایام میں نئے مسیحا کے طور خود کوپیش کرکے جو بیان بازی ہورہی ہے اور بیانات کے جو اندھے میزائیل داغے جارہے ہیں ان کے حوالہ سے یہ محسوس کیا جارہاہے کہ وہ ساری بیان بازی اور بیانات کے میزائیل بغیر دھماکہ کئے انہی کی طرف واپس آرہے ہیں۔
نئے بیانات یا نریٹو کا لب ولباب یا دوسرے الفاظ میں نچوڑ یہ ہے کہ کچھ روایتی پارٹیاں عوام کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کرکے انہیں گمراہ کررہی ہیں، انہیں سچ نہیں بتایا جارہاہے اس کے برعکس ہم ہیں کہ لوگوں کے جذبات اُکسانے یا جذباتی نعرے بلند کرکے انہیں گمراہ کرنے کی بجائے ان کے سامنے سچ بات رکھتے ہیں۔ جھوٹ کیا تھا گمراہ کن کیا تھا اور اب ان کا سچ کیا ہے، یہ ایک ایسی بحث ہے جس کو ٹنل سے گذارا جائے تو آخری سرا بھی اندھیرے میں ہی غرق دکھائی دے گا۔
مثلاً ایک صاحب سیاست کا کہنا ہے کہ ایک پارٹی نے ۲۰۱۴ء کے الیکشن میںعوام کو یہ کہکر گمراہ کیا کہ وہ بی جے پی کو جموں وکشمیر میں اقتدار سے دور رکھے گی لیکن اس نعرے اوروعدے پر عوام کا اعتماد حاصل ہوتے ہی اس پارٹی نے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملایا اور شریک اقتدار بنی۔ لہٰذا عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کردار کی حامل روایتی پارٹیوں کو منہ نہ لگائیں اور اپنے جذبات اور خواہشات کا استحصال نہ ہونے دیں۔ سابق بیروکریٹ سیاست میں آئے تو اُسی دور میں اسی پارٹی نے انہیں قانون ساز کونسل کی رکنیت سے نوازا۔ ایوان میںپارٹی کے موقف، ایجنڈا اور نظریات کے دفاع میں بولتے رہے اورپارٹی منشور اور ایجنڈا کی روشنی میں معاملات کو ایڈریس بھی کرتے رہے۔ عوام کی یاداشت زیادہ کمزور نہیں۔ نیا نریٹو اپنی جگہ لیکن ماضی تو تاریخ کا ان مٹ حصہ اور باب ہے۔
سیاسی حریفوں کی سیاست، نظریات، منشور،ایجنڈا کا توڑ کرنا ہر سیاسی پارٹی کی ضرورت اور مجبوری ہے۔ اس توڑ کے بغیر کوئی بھی سیاست کا ریا سیاسی پارٹی نہ پیش رفت پکڑ سکتی ہے اور نہ ہی عوام کو اپنی طرف آنے کیلئے قائل کرسکتی ہے۔ لیکن کچھ آداب اور معیارات بھی کچھ نہ کچھ حقیقت رکھتے ہیں ۔ ایسا محسوس ہورہاہے کہ کشمیر میں جو نیا سیاسی منظرنامہ اُبھر رہا ہے اُس منظرنامہ کے حوالہ سے نہ آداب، نہ معیارات اور نہ کچھ زمینی حقائق کو ملحوظ خاطررکھنا ضروری سمجھاجارہاہے۔ سیاسی پارٹیوں کا یہ طرزعمل بھلے ہی انہیں وقتی طور سے انہیں کچھ فائدہ دے اور لوگوں کی توجہ کا بھی محرک بن سکے لیکن معاشرتی بگاڑ کا ہر عنصر اس میں پوشیدہ ہے۔ بگاڑ ہر گذرتے روز کے ساتھ وسیع یا گہرا ہوتا جائے تو ہر فرد اس کے زیر اثر آتا رہیگا، یہ معاشرتی بگاڑ اپنے عروج پر جب بھی پہنچ جائے تو یہ خاندانوں کی دہلیز پار کرکے ان کی زندگیوں کو تہہ وبالا کرکے رکھ سکتا ہے۔
کشمیرکے اسی تناظرمیں ماضی کے کچھ واقعات کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ کیا آج کی تاریخ میں سیاسی اُفق پر سرگرم عمل سیاسی کارکن’ترک موالات‘ کے دور اور اس دور کے دوران معاشرتی بگاڑ، خانہ جنگی جیسے حالات ، ہر محلہ میں سرائیت بے رحمی اور ایک دوسرے کے تئیں بے اعتنائی ایسے شرمناک اور برآمد سنگین نتائج سے واقف نہیں۔ جو لوگ آج اپنی تقریروں میں رائے شماری نعرہ کا حوالہ دے رہے ہیں ترک موالات کا تعلق تو اُسی دور سے رہا ہے۔ یہ ماضی کی تلخیاں ہیں ان کاآج کی تاریخ میں تذکرہ بے محل ہے۔
آج کی نوجوان پود باالخصوص جو ۹۰ء کے بعد ہمارے درمیان آئی کو غالباً شیر بکرا دور کی خونین لڑائی کی علمیت نہ ہو لیکن اُس دور سے واقفیت رکھنے والے تو ضرورحیات ہیں۔ کیا جماعت اسلامی نے تبلیغ سے کنارہ کشی اختیار کرکے سیاسی جامعہ پہنچایا اوراس طرح سیاست میں قدم رکھ کر اور اپنا دبدبہ مسلط کرنے کی خاطر اپنے ورکروں اور عہدیداروں کے نام یہ فتویٰ جاری نہیں کیا کہ اپنی بیٹیوں کو غیر جماعتی شہریوں کی نکاح میں نہ دے البتہ غیر جماعتی کی بیٹی کو اپنے نکاح میںلاکر اپنے دائرہ کو وسعت دے سکتے ہیں۔ یہ اور کئی دوسری دلخراش اور تکلیف دہ واقعات کشمیر کی تاریخ کا حصہ ہیں۔
سیاستدان سیاست کریں لیکن معاشرے کو اپنی سیاسی عصبیت کی بھینٹ چڑھانے کی سعی لاحاصل نہ کریں۔ایک اور مثال ایک اور سیاستدان کے حوالہ سے دی جاسکتی ہے جو اپنی تقریروں میں لوگوں پر باربار زور دے رہے ہیں اور تلقین کرتے رہتے ہیں کہ وہ روایتی سیاستدانوں اور روایتی پارٹیوں کے جذباتی نعروں اور جعلی وعدئوں پر کان دھر کر خود کو گمراہ ہونے سے بچائیں۔ یہ سیاستدان مرحوم شیخ محمدعبداللہ کی وزارتی کونسل کا حصہ رہا ہے اور اس دورمیں اس کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ یہ نوجوانوں کی قیادت کررہاہے۔ آج وقت گذرے عمر کے کچھ تقاضے ہیں لیکن بحیثیت وزیر اور بحیثیت پارٹی (نیشنل کانفرنس)کے رکن کے کتنے جذباتی نعرے بلند کئے اور کتنے جعلی وعدوں کا خودسہارا لیا۔
کشمیر ی عوام شیربکرا، ترک موالات ، نکاح ایسے معاملات کے نتیجہ میں مختلف ادوار میں تقسیم درتقسیم کے درد اور دور سے باہر آیا لیکن ایک اور اقتدار کا زندگی بھر کا متوالا اپنے ایک اختراعی وزن اور مشن جو بعد میں ناکامی اور نئے درد پر منتج ہوکرنازل ہوا اور شہر وگام کی تقسیم کرڈالی۔ یہاں تک کہ ایڈمنسٹریشن کے اندر بھی شہر اور گام کا زہر پھیلایا۔ ان ساری لن ترانیوں ، بے عملیوں ، آوارہ گرد سوچوں اور طرزعمل کا موقعہ ملتے ہی فائدہ کسی اور نے اُٹھایا اور کشمیرکو ’’لَتہِ مونڈَ‘ کرکے رکھدیا۔
بہرکیف جوکوئی بھی سیاست کار ہے سیاست تو کریں لیکن خدا را کشمیرکے مفادات کو نظروںسے اوجھل نہ ہونے دیں۔ یہ ایک چھوٹی سی خواہش ہے جس میں عوام کی ترقی اور امن کے ساتھ زندگی کا سفر طے کرنے کا راز مضمر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔