دفعہ ۳۷۰؍ اور خصوصی درجے کے خاتمہ سے متعلق حکومتی فیصلوں پر سپریم کورٹ نے اپنی مہر تصدیق ثبت کردی ہے اور دائر پٹیشنوں پرکئی ماہ تک مسلسل سنوائی کے دوران حکومتی فیصلوں کے حق اور مخالفت میں فریقین نے جو دلائل پیش کئے تھے ان پر عدالت عظمیٰ نے اپنی طرف سے وضاحتیں پیش کرکے بلکہ کچھ کے بارے میں تاریخی حوالہ دے کر اپنا حتمی فیصلہ سنادیاہے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر فی الحال ملا جلا ردعمل آنا شروع ہوگیا ہے اورآنے والے کا فی دنوں تک سپریم کورٹ کی رولنگ کی روشنی میں بحث وتکرار بھی جاری رہیگی، حق میں بھی آوازیں سنائی دیتی رہینگی اور مخالفت میں بھی لیکن آئینی موشگافیاں کیا ہیں اور کیا نہیں ان پر فوری طور سے اظہار رائے فی الحال مناسب نہیں کیونکہ یہ شعبہ ماہرین قانون کا ہے، صحافت کا نہیں۔
البتہ سپریم کورٹ کا یہ واضح اظہار کہ آئین کی دفعہ ۳۷۰؍ کی حیثیت عارضی تھی جبکہ یہ دعویٰ یادلیل کہ جموںوکشمیر ریاست نے اپنی ساورنٹی اپنے حد اختیار میں رکھی تھی سرنڈرنہیں کی تھی درست نہیں بحث طلب اور غور طلب ضرور ہے۔ اس حوالہ سے جواب دہ وہ ریاست کے حکمران براہ راست ہیں جو الحاق کے بعد ریاستی آئین ساز اسمبلی کی تشکیل، خصوصی پوزیشن اور آئین میں دفعہ ۳۷۰؍ کے اندراج کے ساتھ ساتھ ۱۹۵۲ء کے دہلی اگریمنٹ سے لے کر برابر ۵؍اگست ۲۰۱۹ء تک اقتدار میں رہے، جن کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ تو ہورہا تھا لیکن وہ اقتدار کے نشے میں بدمست رہے لیکن اپنی اس بدمستی کو چھپانے کیلئے ۳۷۰؍ اور خصوصی درجے کے خاتمہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا راستہ اختیار کرکے ‘چور مچائے شور‘ کے مصداق شورمچاتے رہے۔
قطع نظر ان تمام پہلوئوں کے سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں جموں وکشمیر کے لئے ایک اطمینان بخش پہلو یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ نے ریاستی درجہ فوری طور سے بحال کرنے اور اگلے سال ۳۰؍ ستمبر تک قانون ساز اسمبلی کے لئے الیکشن کا انعقاد عمل میںلانے کا حکم دیا ہے جبکہ لداخ کے بارے میں اس کی یوٹی کی حیثیت کا فیصلہ برقرار بھی رکھا اور جموں وکشمیرکی جغرافیائی حدود سے لداخ کو کاٹ کر علیحدہ یوٹی کی تشکیل کو آئینی شقوں کی روشنی میں درست قراردیا ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے اس حصے پر جموںوکشمیر نشین سیاسی پارٹیوں کو یہ اطمینان اب ہونا چاہئے کہ ان کی الیکشن کی خواہش تقریباً پوری ہوتی نظرآرہی ہے۔ جبکہ عام لوگوں کے لئے اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ وہ یوٹی کے درجے سے باہرآکر واپس ریاستی درجہ میں قدم رکھنے کے اہل قرار دیئے گئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس تعلق سے اٹارنی جنرل کی وساطت سے مرکزی حکومت کی یقین دہانی کا حوالہ دیاہے۔
دفعہ ۳۷۰؍اور خصوصی درجہ کے خاتمہ کا اعلان ۵؍اگست۲۰۱۹ء کو پارلیمنٹ میں کیاگیا تو کشمیربحیثیت مجموعی خاموش رہا، کسی بھی قسم کا کوئی منفی ردعمل سڑکوں پر نہیں دیکھاگیا۔ اس کی کچھ وجوہات ہیں۔ اوسط شہری کو یہ جانکاری بلکہ علمیت حاصل تھی کہ جس دفعہ ۳۷۰؍ کو لے کر پورے ملک میں ایک سیاسی وبال پیدا کیا جاتارہاآئین کی اُس مخصوص دفعہ کی حیثیت محض کاغذ کے ایک ناکارہ پرزے سے زیادہ نہیں رہی تھی، کیونکہ جن سیاست دانوں اور حکومتی ذمہ داروں نے وقت اور حالات کے تقاضوں کے پیش نظر اور عوام کے جذبات کو مد نظر رکھ کر اس کو آئین کا حصہ بنایا تھا انہوںنے ہی بعد میں آہستہ آہستہ ان آئینی ضمانتوں کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا بنانے میںاہم کرداراداکیا ۔ جبکہ بخشی غلام محمد، غلام محمد صادق، سید میر قاسم، شیخ محمدعبداللہ ، ڈاکٹر فاروق عبداللہ، غلام نبی آزاد، مفتی خاندان اور وہ دوسرے جو اقتدار پر رہے یا جو مرکز اقتدار کے قریب رہے تھے نے بھر پور معاونتی کرداراداکیا۔
یہی وجہ ہے کہ کشمیرمیں خاموشی رہی کیونکہ کشمیری عوام اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مردہ لاش کو نہ قبر سے واپس نکالا جاسکتا ہے اور نہ ہی اُس میںنئی روح پھونکی جاسکتی ہے۔ یہی خاص وجہ رہی کہ انہوںنے خاموشی اختیار کی اور امن اور سلامتی کے حوالہ سے بدلے سیاسی اور انتظامی سسٹم کاساتھ نبھاکر اپنا اشتراک اور تعاون پیش کیا۔ یہ گذرے چار پانچ سال عوام کے اسی جذبہ امن اور اشتراک کی مرہون منت ہیں کہ آج کی تاریخ میں چند ایک ناخوشگوار واقعات کو چھوڑ کر مجموعی طور سے امن اور سلامتی ہے۔
البتہ کشمیرنشین سیاسی جرگوں کیلئے سپریم کورٹ کی اس مخصوص رولنگ میں یہ پیغام واضح طور سے موجود ہے کہ وہ اب ان مخصوص جذباتی نعروں کے خول سے خود کو آزاد کریں اور اپنی سیاست بے شک حصول اقتدار کیلئے گرما تیں رہیں لیکن عوام کی خوشحالی اور ترقی کے ساتھ ساتھ ان کی سلامتی، صحت اور بقاء کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے خود کو وقف کریں۔ ۳۷۰، ۳۵؍ اے اور خصوصی درجہ کو اب اپنی سیاست کا نریٹو بنانے سے اجتناب کریں۔
کشمیر نشین سیاست دانوں کیلئے یہ پیغام بھی واضح ہے کہ وہ کرگل اور لداخی عوام باالخصوص ان کی لیڈر شپ کے طرزاپروچ کی تقلید کرکے خطے کے معاملات پر مرکز ی قیادت سے براہ راست رجوع کرکے ان کاحل تلاش کریں۔ سڑکوں پر آنے اور بیان بازی کا راستہ اختیار کرکے یا سہارا لینے سے کچھ بھی حاصل نہیںکیاجاسکتا ہے ۔ لداخی لیڈر شپ نے اپنے اسی روڈ میپ کو وضع اوراختیار کرکے ثابت کردیا ہے کہ مذاکرات اورآپسی اشتراک عمل وتعاون میںہی تمام معاملات کا حل تلاش کیا جاسکتاہے۔ اب تک اس قیادت نے مرکز کے ساتھ مذاکرات کے کئی رائونڈ کئے اور ہر رائونڈ کے اختتام پر اپنے لئے کسی نہ کسی معاملے کا حل تلاش کرلیا ہے۔
کشمیرکے جو سیاسی جرگے ایک دوسرے کی کردارکشی اور طعنہ زنی میں مصروف ہیں وہ اس خوش فہمی سے باہر آجائیں کہ لوگ ان کے ان چونچلوں سے اپنی آراء اور خواہشات کو ترتیب میں میں رکھ کر آئندہ کیلئے اپنی ترجیحات یا پسند ناپسند کے خانوں میں سجا رہے ہیں۔ ایساکچھ بھی نہیں بلکہ سنجیدہ شہری سیاست دانوں کے اس انداز فکر اور طرزعمل کو ان کے مسخرہ پن سے موسوم کررہے ہیں۔