بی جے پی کی تین اور کانگریس کی ایک ریاست میں کامیابی نے کئی نئے سوالوں کو اُبھار ا ہے۔ اگر چہ راجستھان میں کانگریس کی اقتدار سے بے دخلی کو اُس ریاست کی اسمبلی الیکشن کے حوالہ سے بدلائو کو ایک طرح کی روایت کا محض اعادہ تصور کیا جارہا ہے لیکن کانگریس کی اسمبلی الیکشن میں شکست کے پیچھے کچھ ایسے پہلو ہیں جو نمایاں تو ایک عرصہ سے تھے ہی لیکن اس شکست کو کانگریس ہائی کمان کی سبکدوش وزیراعلیٰ اشوک گہلوت پر حد سے زیادہ اعتبار اور توقعات کا ردعمل قراردیاجارہا ہے۔
اس مخصوص ریاست میںکانگریس کی شکست کی ایک اہم وجہ سچن پائلٹ فیکٹر کو نظرانداز کرنے کی بھی بیان کی جارہی ہے۔ بہرحال شکست کے پیچھے جو کوئی بھی وجہ درکار ہے عوام نے اس ریاست میںاپنی روایت اور ترجیحات کو برقرار رکھتے ہوئے اگلے پانچ سال کے لئے پھر سے بی جے پی کو اپنا اعتماد تھمادیا ہے جس عوامی اعتماد کو بی جے پی کی قیادت کا ایک حصہ پارٹی کی گڈ گورننس اور ترقیاتی عمل پر لوگوں کے اعتماد کا ثمرہ قراردے رہے ہیں۔
کانگریس مسلسل دعویٰ کرتی رہی کہ اسے مدھیہ پردیش میںزبردست عوامی اعتماد اور تعاون حاصل ہے اور الیکشن میں ۱۳۰؍ سے زائد حلقوں میں اسے کامیابی ملے گی اور اُس اقتدار کو واپس حاصل کرلیاجائے گا جسے بقول ان کے بی جے پی نے گذشتہ اسمبلی الیکشن میںکامیابی کے بعد تشکیل دی گئی کانگریس کی حکومت کو خریدوفروخت کے بل پر اقتدار سے بے دخل کرکے اُس پر قبضہ کرلیا تھا لیکن کانگریس لیڈر شپ باالخصوص سابق وزیراعلیٰ کمل ناتھ اور دگ وجے سنگھ کے یہ دعویٰ محض سراب ثابت ہوئے اور کانگریس کو توقعات اور عندیوں کے برعکس بہت کم قلیل تعداد میںکامیابی ملی ۔
اس ریاست میں کانگریس کی ناکامی کی ایک دوسری وجہ یہ بھی سمجھی جارہی ہے کہ کانگریس ہائی کمانڈنے بالادستی اور ہٹ دھرمی کا طریقہ اختیار کرکے اکلیش یادو کی سماجی وادی پارٹی کے ساتھ انتخابی گٹھ جوڑ کرنے سے انکار کردیا۔ اگر چہ یادو پانچ دس حلقوں میںہی اپنے اُمیدواروں کے لئے کانگریس کا تعاون مانگ رہے تھے لیکن کانگریس لیڈر شپ نے اس کی یہ مانگ منظور نہیں کی اور اکیلے الیکشن میں کود گئی۔ کانگریس کی یہ ہٹ دھرمی ضد اور نظریہ بالادستی نہ صرف خود کانگریس کو لے ڈوبی بلکہ اپوزیشن پارٹیوں کے حالیہ اتحاد ۔ انڈیاالائنس کو بھی زمین بوس کرکے رکھدیا ہے۔
چار ریاستوں میںکانگریس کو بی جے پی کے ہاتھوں ۳۔۱؍ کی شکست کو اگلے سال پارلیمانی الیکشن کے حوالہ سے منی چنائو قرار تو دیاجارہا ہے لیکن جو نظرمیں آرہا ہے وہی زمینی حقیقت نہیں ہے۔ ان چنائو نتائج سے بے شک اپوزیشن اتحادانڈیا الائنس کو شدید دھچکہ لگ گیا ہے لیکن کانگریس کو سب سے زیادہ نقصانات سے بھی ہم کنار کردیا ہے۔ یہ نتائج کانگریس کے لئے ایک زبردست چتائونی ہے اور اپنے انداز فکر ، طرزعمل اور اپوزیشن کے ساتھ اتحاد کے تعلق سے اپروچ پر از سرنو سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔ لیکن اگر ہائی کمانڈ بدستور اپنے بالادستی نظریے پرہٹ دھرم اور بضد رہی تو آنے والے دنوں میں جہاں کہیں بھی اور جو بھی الیکشن ہوں گے اس گرینڈ اولڈ پارٹی کا صفایا یقینی بن سکتا ہے۔
اپوزیشن اتحاد انڈیا الائنس اور اس اتحاد میںشامل کچھ اہم اکائیوں نے بھی اس ہزیمت اور شکست فاش کیلئے کانگریس کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ سماج وادی پارٹی، جنتا دل (یونائیٹڈ) ترنمول کانگریس نے جہاں اپنے ردعمل میں کانگریس سربراہ ملکا رجن کھڑگے کو نشانہ بنایا وہیں جموںوکشمیر میںپی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے کانگریس کی شکست پر اپنی افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس کو اپنے گریبان میں جھانکنے کا مشورہ دیا ہے البتہ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے اپنے ردعمل میں کانگریس کی شکست کو جہاں اپوزیشن اتحاد کیلئے شدید دھچکہ قراردیا ہے وہیں شکست کے لئے کانگریس کی ضد اور ہٹ دھرمی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔عمر کامزید کہنا ہے کہ اگر کانگریس کا رویہ اور اپروچ یہی رہا تو اگلے سال پارلیمانی الیکشن میں جیت ناممکن ہوگی۔
بہرحال ان ریاستوں میںالیکشن سے قبل اپوزیشن اتحاد باالخصوص کانگریس کے تعلق سے جو کچھ بھی تاثر تھا الیکشن نتائج نے اس سارے منظرنامے کو یکسر تبدیل کرکے رکھدیا ہے۔ کانگریس جس مقام پر قدم رکھ کر بات کرتی رہی پارٹی کو اب اُس مقام سے کچھ زینے نیچے آکر اپنے اتحادیوں کے ساتھ با ت کرنے اور سب سے بڑھ کر ان کے ساتھ اسٹرٹیجی طے کرنے کیلئے مشاورت کیلئے مجبور ہونا پڑے گا لیکن اگر پارٹی بدستور اپنے نظریہ بالادستی اور بڑے پن کے دکھائوے اور اپنا نا م نہاد دبدبہ پر بضد رہی تو ۲۰۲۴ء اس کی سیاست کیلئے شمشان ہی ثابت ہوسکتا ہے۔
تاہم کانگریس ہائی کمان کیلئے فی الوقت تھوڑا سے اطمینان کی بات یہ رہی کہ اس کو تلنگانہ میں کامیابی نصیب ہوئی۔ اس کامیابی کے پیچھے کچھ ایسے کارکن رہے جن وجوہات کی وجہ سے بی جے پی اور حکمران جماعت عوام میں ناپسندیدتصور کی جارہی تھی۔ لیکن تین ریاستوں میںشکست فاش اور ایک میںکامیابی کو کچھ کانگریس راہنما یہ کہکر اپنے آپ کو تسلی دے رہے ہیں کہ ووٹروں نے کانگریس کو شکست نہیں دی ہے بلکہ پارٹی کا ووٹ شیئر بڑھ گیا ہے۔ ممکن ہے ووٹ شیئر بڑھ گیا ہولیکن یہ تسلی کیا طفل تسلی نہیں، کہا جاتا ہے کہ جو جیتا وہی سکندر لیکن کانگریس لیڈر پتہ نہیں کس خود فریبی میں مبتلا ہے کہ انہیں عوام کے رجحانات نظر نہیں آرہے ہیںبلکہ کانگریس کی مجموعی لیڈر شپ شکستوں پر شکست کے باوجودخود کو بہلا رہی ہے اور تسلی دے رہی ہے۔
اس آپ بہلا وے اور تسلی نے ہی اس پارٹی کو حالیہ چند برسوں کے دوران زمین چاٹنے پر مجبور کردیا ہے لیکن یہ لوگ زمین چاٹنے کے باوجود نہ اپنی سوچ تبدیل کررہے ہیں اور نہ اپروچ کے ساتھ ساتھ اپنی وضع۔ بس ایک مخصوص راگنی کا راگ الاپے جارہے ہیں جس راگ کا اب لوگوں کی اکثریت نہ پسند کرتی ہے اور نہ ہی اس کا خریداربننے کیلئے آمادہ
اس نئے اُبھرے تناظرمیں اب اپوزیشن اتحاد انڈیا الائنس کیا کرے اور کس راستے کو بطور اپنے لئے روڈ میپ مرتب کرے یہ سوال سرفہرست رے گا۔ سبھی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ’’یہ مٹی بہت زر خیز ہے لیکن اس زرخیز مٹی سے ثمرات حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ خود کو نم‘‘ کرنا پڑے گا، لیکن اتحاد میںشامل اکائیوں میںسے نم ہونے کیلئے آمادہ کون ہے اور کون نظریہ بالادستی کے جنون میں مبتلا ہے ، اُس کے ہوتے کامیابی حاصل کرنے کے جو خواب دیکھے جارہے ہیں وہ شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتے ۔