سیا ستدان اور سیاسی پارٹیوں کی اپنی من مرضی اپنا منشور ،اپنا ایجنڈا، اپنا موقف اور اپنا مخصوص نظریہ ہوتا ہے اور انہی جملہ عقیدوں کے مطابق وہ اپنی پالیسیاں اور راستے مرتب کر کے عوامی دربارمیں پیش ہوتے ہیں، اُن کی ان عقیدوں ، نظریات اور ایجنڈا کو چیلنج تو نہیں کیا جاسکتا ہے البتہ یہ عوام کی صوابدید ہے کہ وہ پسند کریں، قبول کریں یا مسترد ، لیکن سول سوسائٹی، معاشرے کے ایک حصے، پُل یا ستون کی حیثیت کے حوالہ سے بطور صحافی کے یہ حق تو حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند اور ناپسند کے خول سے باہر آکر اور سب سے بڑھ کر تنقید برائے تنقید کے جذبہ سے کام نہ لیتے ہوئے عوام اور سٹیٹ کے وسیع تر مفادات میں غیر جانبدارانہ آراء کا راستہ اختیار کرے، لفافہ صحافت کا راستہ نہیں!
البتہ یہ درست ہے کہ صحافی بھی سیاست کا کوئی نہ کوئی پسند اور نظریہ رکھتا ہے لیکن سیاسی پسند اور ناپسند کے حوالہ سے وہ عوام کی رائے اور رجحانات کی بھی کچھ نہ کچھ جانکاری ضرور رکھتا ہے اور سیاسی منظرنامہ میں پل پل تبدیل ہورہے یا وقوع پذیر ہورہے رجحانات پر بھی گہری نگاہ ہوتی ہے۔جموں وکشمیرکے حوالہ سے کہا جاسکتا ہے کہ کم وبیش ہر صحافی سیاست سے اگر وابستہ نہیں لیکن دور بھی نہیں ، جس سیاسی دور، سیاسی نظریوں، سیاسی عقیدوں اور سیاسی موقفوں کے ادوار سے جموںوکشمیر باالخصوص کشمیر مرحلہ وار ہو گذرا ہے اور جن نشیب وفراز سے کشمیر کے صحافی کو سامنا رہا ہے ان کے دیکھتے اور پرکھتے ہوئے نہ صرف معاشرتی بگاڑ، زندگی کے مختلف شعبوں کے حوالوں سے اخلاقی انحطاط اور سیاسی لیڈروں اور سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں عوام کے احساسات، آرزوں ، تمنائوں ، ضرورتوں اور خواہشات اور جذبات کا قدم قدم پر جو ناجائز استحصال ہوتا آرہا ہے وہ جہاں سماج کے ہر حساس طبقے کیلئے پریشان کن ہے وہیں صحافی جو اسی معاشرے کا ایک حصہ ہے کیلئے بھی بے حد تکلیف دہ بلکہ روح فرسا بن چکا ہے۔
داستان لمبی ہے جبکہ سیاست نے جو زخم دیئے ہیں وہ گہرے ہیں۔ کشمیر نشین کوئی بھی سیاستدان اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اُس کا کوئی سیاسی آقا نہیں۔ وہ یہ بھی دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اُس نے اپنے سیاسی کیرئیر کے دوران ’ملازمانہ‘ رول نہیں نبھایا، بے شک وقتی اور مصلحتوں کے تابع مختلف نظریات کے حامل سیاست دان مختلف اتحادوں اور گٹھ جوڑوں سے وابستہ ہوتے رہے ہیں لیکن یہ گٹھ جوڑ مفادات اور سیاسی نظریات سے بالاتر ہوکر عوام کے ساتھ مخلصانہ ہوتا تو کشمیر نہ ۷۵؍سال سے عدم سیاسی استحکام، بے چینی اور معاشی تباہ حالی سے دوچار ہوا ہوتا اور نہ گذشتہ زائد از ۳۲؍ سال سے خون میں لت پت رہا ہوتا!
کشمیر کا ۷۵؍ سال کاسیاسی منظرنامہ عظیم الشان عہد شکنیوں ،آسمان کی رفعتوں سے چھوتی بے وفائیوں، سودا گری اور سودے بازیوں، سبزرومال ،کوہستانی نمک کی آڑمیں چال بازیوں اور سیاسی ریاکاریوں ، جذبات اور احساسات کے استحصال، کبھی ترک موالات اور کبھی گندی نالی کے کیڑوں کے نعروں تو کبھی اقتدار کی بدمستی اور نشے میں’بات بنے گی گولی‘ سے کاایجنڈا سے ’نارتھ اور سائوتھ بلاک‘ کے درمیان رشتہ ازدواج میں جبری بندھن، کبھی ’حوالہ‘ کے پانیوں میں ڈبکیاں لگا کر کمیشن وصول کرنے تو کبھی بندوق کی سرپرستی کرنے اور کبھی ’’وطنیت کے حصول ‘‘کا مشن اور وژن کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ اور بہت کچھ سے عبارت تصور کیاجارہاہے۔
مختصر یہ کہ کشمیرکی سرزمین اور اس کے مکین بہت سارے مسائل اور آزمائشوں سے جھوج رہے ہیں۔ٹنل کا آخری سرا تو اب نظرآرہا ہے لیکن اس آخری سر ے سے اندر داخل ہورہی روشنی دھندلی سی ہے۔ہر ایک اُمید وبیم کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ گائوں اور دیہات میں رہنے والے کی سوچ کا دھارا شہروں اور شہرکی مضافاتی بستیوں کے مکینوں کی سوچوں کے دھارائوں سے مختلف ہے۔ پیشہ ور سیاست کاروں نے عوام کو گذرے برسوں کے دوران اپنے حقیر مفادات کی تکمیل کیلئے جن راستوں کو اپنایا، محسوس اور غیر محسوس طریقوں سے عملی جامہ پہنایا اس کے نتیجہ میں عوام کا آپسی اتحاد پارہ پارہ ہوکررہا گیا ہے۔
معاشی معاملات، بے روزگاری،نوجوان نسل کی منشیات کی طرف پیشقدمی، معاشرتی اشوز، ہرگذرتے دن کے ساتھ برین ڈرین کے شرح تناسب میں اضافہ، کچھ ایسے معاملات ہیں جو ہنگامی طرز کے اقدامات اورسنجیدہ توجہ کا تقاضہ کررہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ان اشوز کو پوری سنجیدگی اور ذمہ داری کے ساتھ کیا کوئی سیاستدان اور سیاسی پارٹی ایڈریس کرتی نظرآرہی ہے۔ اس کے برعکس یہ سیاسی پارٹیاں اور ان سے وابستہ لیڈر شپ، چھوٹی یا قدآور، ایک دوسرے کی کردارکشی اور طعنہ زنیوںکے پہاڑ کھڑے کرنے میں دن رات سرگرم ہیں۔ ماضی او رماضی قریب کی ایک دوسرے کی سیاہ کاریوں اور سودا بازیوں کو بطور ہتھیار بروئے کار لایاجارہاہے، ایک دوسرے کو عوامی دربار میں ننگا کرنے کی ان کی کوششیں درحقیقت یہ خود کو ننگا کررہے ہیں۔
اس ننگے پن کامظاہرہ کرکے یاراستہ اختیار کرکے یہ فرض کررہے ہیںکہ عوام کا اعتماد ان چونچلوں کی وساطت سے وہ حاصل کرکے اقتدار میں آجائیں گے۔ آپسی اتحاد، تعاون، اشتراک عمل اور عوام کے وسیع تر مفادات میں ایک جٹ ہو کر سیاست کرنے کی ان کے اندر ذرہ بھر بھی جذبہ موجود نہیں۔ ان سب کی سیاست ریاکاری، جھوٹ، فریب اور استحصال سے عبارت ہے، یہی ان کا ایجنڈا ہے اور یہی ان کا منشور ہے۔
جس منظرنامہ کو ان سیاسی پارٹیوں نے جنم دے رکھا ہے اور جس کو تن ، من اور دھن کے ساتھ فروغ دے کر عملی جامہ پہنایا جارہا ہے آنے والا کل یہی طرز عمل انہیں سیاسی لنگڑے کا خطاب بھی عطاکرے گا اور پچھتائوے کے درودیواروں سے سر پھوڑنے پر مجبور بھی کرے گا۔
ابھی کچھ نہیں بگڑا ہے، وقت اگر چہ تیزی سے ہاتھ سے نکلتا جارہاہے لیکن قدم روک کر وقت کے آگے باندھ باندھنے کی سعی بھی ہوسکتی ہے۔ آج کی تاریخ میں جو سیاستدان ایک دوسرے کی طعنہ زنی کررہے ہیں ممکن ہے آنے والے کل کسی اشو پر وقت کے ہاتھوں مجبور ہوکر آپسی روحوں کا نہیں البتہ جسموں کا اتحاد کرنے کا راستہ اختیار کرنا پڑے۔ اُس وقت یہ کس منہ سے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑیں گے اور کس منہ سے گلے ملیں گے؟ ان سیاستدانوں کو ایک چھوٹا سا مشورہ یہی دیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے بل پر اقتدار میں آنے کا خواب دیکھنا بند کریں۔ یہ تو فی الوقت کا نوشتہ دیوار ہے، آنے والے کل کیا ہوگا یا کیا ہونے جارہا ہے، کل کی کس کو خبر!!