جموں وکشمیر غالباً ملک کی واحد ریاست (یوٹی) ہے جہاں مختلف نزاعی معاملات سے نمٹنے کیلئے ایڈمنسٹریشن کی مختلف اکائیوں کی جانب سے مذہبی علماء ، روحانی پیشوائوں اور خطیب حضرات سے اپیلیں کی جارہی ہیں کہ وہ اپنے اثرورسوخ کو بروئے کار لاتے ہوئے عوامی سطح پر بیداری لائیں تاکہ منشیات کا بڑھتا استعمال ہو یا بجلی کی ناجائز ہکنگ اور بجلی بحران کے ہوتے جدید آلات کا استعمال ہو پر قابو پایا جاسکے۔
گذشتہ کچھ مدت سے منشیات کے بڑھتے استعما ل پر قابو پانے کیلئے علماء سے اپیلیں کی جارہی ہیں کہ وہ سماجی سطح پر بیداری لائیں تاکہ نشہ آور شئے کے بڑھتے استعمال کے نقصانات اور معاشرے پر مرتب ہورہے منفی اثرات سے خوفزدہ ہوکر یہ لت چھوٹ جائے۔ علماء حضرات نے اس سنگین نوعیت کے معاشرتی اشو کے حوالہ سے اب تک کیا کچھ کردار اداکیا وہ کچھ وجوہات کے پیش نظر بحث طلب تو ہے لیکن اب محکمہ بجلی کے ارباب بھی میدان میں اُتر کر علماء سے درخواست کررہے ہیں کہ وہ ’’بجلی کے ناجائز استعمال ‘‘ کے خلاف محکمہ کی چلائی جارہی مہم میں اپنا کردار اداکریں تاکہ ’بجلی چور‘ بجلی کی چوری سے اجتناب کریں۔
یہ تصویر ایک پہلو ہے ، اس تصویر کا دوسرا پہلو بھی ہے جس کا تعلق خود علماء حضرات کی جانب سے مختلف نوعیت کے معاشرتی مسائل، معاشرے میںسرائیت کرتی جارہی رسومات بد اور بدعات کافروغ، اخلاقی اقدار کی پامالی، بے جا اصراف، بگڑتے معاشرتی آداب کے علاوہ اور کئی دیگر معاملات سے ہے کو اپنی روزمرہ زندگیوں اورمعمولات سے الگ تھلگ کرکے صاف وپاک زندگی گذارنے کی اپیلوں اور درس وتدریس اور کوششوں سے ہے۔لیکن سوال یہی ہے کہ کیا ہمارے علماء اور روحانی پیشوا حضرات اپنی ان کاوشوں میںکامیاب ہوئے او راگر ہوئے ہیں تو کس حد تک ، لیکن اگر ناکامی کا سامنا کررہے ہیں تو کیوں اور اُس ناکامی کی وجوہات کیا ہیں؟اُس پر تو توجہ ہونی چاہئے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ ہمارے علماء اور خطیب حضرات معاشرے میںاپنے اپنے قد کے حوالہ سے اثرونفوز رکھتے ہیں۔ ان کی روحانی مجلسوں اور واعظ وخطاب کی محفلوں میںجو لوگ موجود ہوتے ہیں ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو ان مجالس کی روح کو سمجھتے ہیں ، جانتے ہیں اور ان کا تقدس عزیز رکھتے ہیں۔ ظاہرہے ایسے سامعین کسی معاشرتی برائی کا حصہ نہیں ، لیکن اس دائرے سے باہر جو لوگ ہیں ان کی اپنی ایک الگ دُنیا ہے ، وہ علماء کا احترام تو رکھتے ہیں لیکن اپنی من اور چاہت کی زندگی گذار رہے ہیں۔ اس میں بھی دو رائے نہیں کہ خطیب اورعلماء حضرات مختلف نوعیت کی سماجی برائیوں کے خلاف بولتے رہتے ہیں اور لوگوں سے اسوہ حسنہ ﷺ کی روشنی میں اجتناب کرنے کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ لیکن جہاں معاشرتی بگاڑ، معقولیت سے کہیں زیادہ سرائیت کرتے معمولات زندگی کا حصہ بن چکا ہو وہاں واعظ وتبلیغ بے اثر اور بے ثمرہ ثابت ہوتا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ مذہبی شخصیات کو بغیر کسی معقول وجوہات کے آپ جب مسلسل تذلیل کرتے رہیں، کسی کو خانہ نظر بند رکھ کر اور کسی کو سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کا راستہ اختیار کریں تو ان کے حوالوں سے پھرمارکیٹ میںان کی توقیر اور قدر و اہمیت بُر ی طرح سے گھٹ جاتی ہے ۔ وہ کسی اشو ع پر عوام سے تلقین کریں کہ وہ یہ کریں اور وہ نہ کریں تو فطری ردعمل یہ ہے کہ عام لوگ یا لوگوں کی اکثریت ان کی طرف توجہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
فی الوقت جموں وکشمیر میں آبادی کو دو سنگین نوعیت کے معاملات کا سامنا ہے ۔ ایک کا تعلق منشیات کی بازاروں میںدسیتابی ، خرید وفروخت اور ان کا بڑھتا استعمال جبکہ دوسرا مسئلہ بجلی کے موجودہ بحران سے جڑا ہے۔ دونوں مسائل سے نمٹنے کیلئے ایڈمنسٹریشن کی جانب سے علماء اور مذہبی پیشوائوں سے مدد طلب کی جارہی ہے مدد طلب کرنے اور عوام میں ان دونوں معاملات کے تعلق سے رائے عامہ منظم کرکے ان کا حل تلاش کرنے کی کوششوں کی سراہنا کی جاسکتی ہے اور کرنی بھی چاہئے، لیکن منشیات کے حوالہ سے پھر وہی سوال بار بار زبان پر آرہا ہے کہ وادی کشمیراور نہ ہی جموں خطے میں کہیں بھی کوئی منشیات کی فیکٹری موجودہیں اور پھر جن نشہ آور چیزوں کا استعمال ہورہاہے وہ مقامی پیداوار بھی نہیں۔ جس کا سیدھا سادھا مطلب یہی ہے کہ یہ اشیا ء یا تو سرحد کے اُس پار سے سمگل کی جارہی ہیں یا ملک کے دوسرے حصوں سے یہاں بازاروں تک پہنچائی جارہی ہے۔ سرحدوں پر سخت ترین پہرے ہیں، سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں مسلح اہلکار ڈیوٹی پر معمور ہیں، پھر منظرنامہ تبدیل کیوں نہیںہورہا ہے۔ آخر ایسا کون ساطاقتور مافیا اور سمگلروں کا گروہ اس حدتک اثرورسوخ اور وسائل رکھتا ہے کہ پوری ایڈمنسٹریشن سول اور خاکی بھی ان سے نمٹنے میں سرُخ رئو نہیں ہو پارہی ہے۔
کشمیر ہویا جموں منشیات کا بڑھتا استعمال اب خطرے کی گھنٹیوں کو بھی شرمسار کررہا ہے۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق یوٹی کی آبادی کا سات اور آٹھ فیصد کے درمیان آبادی نشے کی لت میں مبتلا ہے اور ماہرین کا دعویٰ ہے کہ نشے کی لت میں مبتلا ہر شخص کو ماہانہ کم سے کم ۹۰؍ ہزار اور ایک لاکھ روپے کے آس پاس اخراجات کا بوجھ برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ پارلیمنٹ میںنشہ آور افراد کی تعداد ساڑھے ۱۳؍لاکھ کے قریب ظاہر کی گئی ہے لیکن سماجی سطح پر نشے کی لت میں مبتلا افراد کی تعداد اس سے زیادہ تصور کی جارہی ہے۔
ظاہر ہے ایڈمنسٹریشن اس مخصوص صورتحال سے نمٹنے میں فی الوقت تک ناکام ہے، آگے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ دوسرا اشو بجلی کے بحران کے ہوتے علماء سے مدد کی اپیل سے تعلق رکھتا ہے ۔ بحران کا ذمہ دارکون ہے؟ کیا جموںوکشمیر کے لوگ اس بحران کے ذمہ دار ہیں، جواب نفی میں ہے، البتہ یہ بات یا دعویٰ بغیر کسی مصلحت یا لگی لپٹی کے کیا جاسکتا ہے کہ ۷۵؍ سال کے دوران جو بھی حکومت برسراقتدار آئی وہ اس صورتحال کی ذمہ دار ہے، جموںوکشمیر میںبجلی کی پیداواری صلاحیت کے تعلق سے مسلسل دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ یہاں ۲۰؍ ہزار میگاواٹ بجلی پیداوار کی گنجائش ہے لیکن اس صلاحیت کوریاستی سطح پر ٹیپ کرنے کی طرف کسی ذمہ دارانہ طرز عمل اور سنجیدگی کا مظاہرہ نہیںکیاگیا، بلکہ پیداوار حاصل کرنے کیلئے ملکی سطح کی کمپنیوں کی جھولیوں میں تمام تر مراعات اور چھوٹ کے ساتھ پروجیکٹ ڈالے جاتے رہے، ان کمپنیوں نے پیداوار حاصل کرکے اجارہ دارانہ حیثیت حاصل کی، جموں وکشمیر کی اپنی آبادی بجلی کیلئے ترس رہی ہے لیکن پیداوار یوٹی سے باہر سپلائی کی جارہی ہے۔ زائد از ۷۵؍ سال کا یہ رونا ختم ہونے کو نہیں آرہاہے۔
اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے کی بجائے محکمہ عوام کو بجلی چور، ناجائز استعمال کا خوگر اور ایڈمنسٹریشن کے کچھ حصے آبادی کو مفت خوری کا طعنہ دیتے رہتے ہیں اور اب اپنی دانستہ ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے علماء اور خطیب حضرات سے مدد طلب کی جارہی ہے۔