سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ اپنے بیانات اور تقریروں میں بار بار یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ان کی پارٹی نیشنل کانفرنس کو کمزور کرنے کی سازشیں کی جاتی رہی ہیںاور ان سازشوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے کچھ مقامی سیاست دانوں کو بطور آلہ کار استعمال کیاجاتا رہا۔
گذری چنددہائیوں کے دوران اس حوالہ سے جو معاملات اور واقعات پیش آتے رہے ان کی روشنی میں عمرعبداللہ کا پارٹی کے خلاف سازشیں کرنے کا دعویٰ غلط نہیں ہے ۔ لیکن سازشیں رچانے والے اور ان سازشوں کو عملی جامہ پہنانے والے کردار اپنی صف میںبھی موجود ہوتے ہیں اور صف سے باہر بھی۔ کامیابی صرف اُسی صورت میں ملتی ہے کہ جب پارٹی کے اندر کچھ ستون اور پہیے کمزور ہوں، جاہ پرست ہوں، مادیت حاوی ہوچکی ہو اور سب سے بڑھ کر ضمیر مردہ ہوچکا ہو۔ پھر ان تمام خامیوں، نفسیات اور دوسرے عوامل نظروں میں ہوں بھی لیکن پارٹی کی قیادت مصلحتوںسے کام لیتی رہے اور سارے معاملات کو نظرانداز کرتی رہے تو کوئی بھی سازش کامیاب ہوسکتی ہے۔
نیشنل کانفرنس کی کامیابی اور عوامی دلوں پر اس کاراج اس کے پالیسیوں اور عوام پرور پروگراموں کی مرہون منت رہا ہے، آمرانہ اور شخصی دور کے خلاف جدوجہد میں پارٹی کے رول اور لینڈ ٹوٹلر ایسے انقلابی اقدامات جن کی نشاندہی ’نیا کشمیر‘ میںبطور پارٹی ایجنڈا اور مشن کے تھی اقتدار ہاتھ میں آتے ہی ان سارے اہداف اور ایجنڈا سے بتدریج دستبرداری نے رائے عامہ کے ایک ذمہ دار اور حساس طبقے کو ہلاکے رکھدیا۔ نیشنل کانفرنس کو کشمیر ی عوام کا ناقابل تسخیر سیاسی قلعہ تصور کیاجاتا تھا لیکن اقتدار کی مصلحتوں اور مجبوریوں کے مطیع ہوکر پارٹی کی وقت وقت کی قیادت سمجھوتوں پر اُتر آتی رہی ۔
کانگریس جس نے ۵۲ء سے لے کر ۷۵ء تک فراڈ الیکشنوں کا سہارا لے کر ۲۳؍ سال تک اقتدار ہتھیا لیا اور اختیارات کا مالک کُل ہونے کے ناطے عہد شکنیوں کے نئے ہمالیہ کھڑا کئے بلکہ آئینی ضمانتوںتک کو کھوکھلا بناکر انہیں محض کاغذ کے چند پرزوں تک محدود کردیا کا دم چھلہ بن کر اس پارٹی کی پیالہ برداری کی اور اپنے مضبوط سیاسی قلعہ میں ایک اور شگاف کی راہیں اُسوقت ہموار کیں جب اندرونی خودمختاری سے متعلق جسٹس صغیر احمد کی سفارشات کا جائزہ لینے کیلئے سابق وزیرخزانہ عبدالرحیم راتھر کی سربراہی میں کابینہ سب کمیٹی تشکیل دی گئی لیکن سب کمیٹی میں شامل کانگریسی وزراء جن کی قیادت تاج محی الدین کررہے تھے نے اس سب پر یہ کہکر پانی پھیر دیا کہ اندرا شیخ اکارڈ کے نتیجہ میں اندرونی خود مختاری کا معاملہ حل ہوچکا ہے۔ عمرعبداللہ بحیثیت وزیراعلیٰ صرف دیکھتے رہ گئے۔
دعویٰ کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ پارٹی کے خلاف پہلی سازش ۵۲ء میںہوئی ، دوسری بڑی سازش ۱۹۸۴ء میں ہوئی، ایک اور سازش ۹۰ء کے عشرے میں ہوئی،ا س سازش کی زد میں ایک حصے کے طور کانگریس بھی نشانہ بن گئی۔ عوامی سطح پر سازشوں کے تانا بانا کے تعلق سے جو کچھ بھی جانکاری دستیاب ہے اُس سے کہیں زیادہ جانکاری خود نیشنل کانفرنس کی قیادت رکھتی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ سازشی کردار کے حامل کچھ چہرے ابھی بھی پارٹی میںموجود ہیں۔عمرعبداللہ جب اپنی پارٹی کے خلاف ان سازشوں کا دعویٰ کرتے ہیں تو وہ کھل کر نہیں بولتے ہیں اور نہ ہی سازشی کرداروں کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ہم مانتے ہیں کہ سیاست اور سیاسی دکان میں راست بازی اور صاف گوئی سے عبارت سودا سلف کی خرید وفروخت ممکن نہیں ، سیاست کا دوسرانام خواہش، چاہت اور معاملات کو ملفوف طریقے اور انداز میں پیش کرنے اور فروخت کرنے کا نام ہے لیکن جہاں معاملات کا تعلق حال اور مستقبل کے حوالہ سے پیچیدگیوں اور حساسیت سے ہو راست گوئی اور شفافیت کے بھی کچھ تقاضے ہیں اور ہونے بھی چاہیں۔
اس کا بھی احساس ہے کہ کشمیر کا سیاسی منظرنامہ انتہائی حساس، پیچیدہ اور دائرے کے اندر دائروں میں لپٹا ہوا ہے اور کسی بھی سیاست کار ،چاہے وہ کتنا ہی پیشہ ور کیوں نہ ہو، کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ سید ھی بات کرے البتہ عوامی ضروریات، تمنائوں ، آرزئوں اور خواہشوں کا احترام بھی سیاستدانوں کیلئے لازمی ہے اور جو ان عوامل کا نہ احترام کرے اور نہ ملحوظ خاطر رکھ پائے اس کیلئے بہتر یہی ہے کہ وہ واپس اپنی ماں کی گود میں پناہ گزین ہوکر اپنی زندگی کا سفر آگے بڑھائے یا کوئی دوسرا پیشہ اختیار کرے۔
سازشوں کے دعوئوں سے قطع نظر اور بھی کچھ زمینی حقائق ہیں جن کو ملحوظ خاطر بھی رکھنا لازمی ہے اور اعتراف کو زبان دینے کی بھی ضرورت ہے ۔عمرعبداللہ کے دور اقتدار میں ۱۶؍۱۷سالہ بچے کی ہلاکت ہوئی، معاملہ کی شفافیت کے ساتھ تحقیقات کرکے ہلاکت کے ذمہ داروں کی نشاندہی کی جاتی حکومت نے ’مائی وے اور ہائی وے‘ کا راستہ اختیار کیا، عوامی سطح پر بڑی تحریک چلی، مزید ۱۱۷؍ شہریوں کو موت کی آغوش میں سلادیا گیا، ان ہلاکتوں پر حکومت کی جانب سے یا حکومتی صفوں میں کہیں بھی پچھتائوا نظرنہیں آیا اور نہ ہلاکتوں پر افسوس یا صدمہ کا اظہار ، واقعہ کے حوالہ سے پارلیمنٹ میں اُس وقت کے وزیرداخلہ پی چدمبرم نے بیان میں یہ اعتراف کیا کہ یہ ہلاکتیں پولیس فائرنگ کے نتیجہ میں ہوئی لیکن عمر صاحب کے چچا ڈاکٹر کمال نے ان ہلاکتوں کے بارے میں یہ بیان دیا کہ یہ ہلاکتیں ہجوم میں موجود ملی ٹنٹوں کی فائرنگ سے ہوئی اور جو ہجوم سڑکوں پر آیا تھا وہ منشیات کا عادی تھا۔
لوگ ایسے واقعات کے تعلق سے حساس ہیں، ڈاکٹر موصوف کے اس بیان نے این سی کی عوامی مقبولیت میں ایک اور شگاف ڈالدیا۔ ایک اور شگاف شوپیان میں ۲؍خواتین کی ہلاکت کے حوالہ سے خود عمر عبداللہ کا وہ بیان کہ یہ خواتین پانی میںڈوب کر مری کے ردعمل میں پڑا، جبکہ ہلاکت کے وقت پانی اڑھائی فٹ کے آس پاس گہرا تھا۔ اگر چہ ریکارڈ پر یہ اعتراف بھی موجود ہے جس کا تعلق ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے دور میںہوئی زیادتیوں اور غلط فیصلوں کے نتیجہ میں پارٹی کی مقبولیت اور عوامی منڈیٹ میں آرہی کمی سے پریشان ہوکر عمرعبداللہ نے عوام سے معافی مانگی اور یقین دلایا کہ اقتدار میںآکر ان غلطیوں اور زیادتیوں کا اعادہ نہیں کیاجائے گا، لیکن غلطیوں کا تسلسل نہ ٹوٹ سکا ۔
محض چند برسوں کے اندر اندر اسمبلی میں پارٹی کی اکثریت ۵۸؍سے گھٹتے گھٹتے ۵۰؍ فیصد سے بھی کم تک محدود ہوکے رہ گئی۔ یہ محدود ہوتا جارہا عوامی منڈیٹ پارٹی کی قیادت کے لئے تازیانہ عبرت بھی ہونا چاہئے تھا اور چشم کشا بھی ، لیکن وہ برابر اپنی دھن میں مست رہی۔ جو پارٹی کبھی اپنے بل پر برسراقتدار آیا کرتی وہ محدود ہو رہے عوامی منڈیٹ کے نتیجہ میں مخلوط اقتدار کا سہار الینے پر مجبور ہوتی رہی۔ لیکن عوام کا منڈیٹ دوبارہ حاصل کرنے کیلئے سیاسی اور معاشرتی سطح پر کچھ بدلتے اپروچ اور ایجنڈا کی ضرورت ہے تاکہ عوام کا مجروح اعتماد اور عزت نفس بحال ہوسکے۔ وکٹم ہڈ سے عوامی اعتماد بحال نہیںکیاجاسکتا ہے۔