نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے درمیان لفاظی جنگ کا پھر سے آغاز ہوگیا ہے۔ نیشنل کانفرنس کے عمرعبداللہ کے بعض حالیہ تنقیدی بیانات اور پی ڈی پی لیڈر شپ کی طرف سے ان پر جو ردعمل اب سامنے آرہا ہے وہ اس لفاظی جنگ کی تصدیق کیلئے کافی ہے۔اگر چہ ابھی الیکشن بہت دور ہے لیکن دونوں پارٹیوں نے بادی النظرمیںاپنی جیت کو یقینی بنانے کیلئے لنگر لنگوٹے ہی نہیں کس کر خود کو میدان میں اُتارا ہے بلکہ دونوں ایک دوسرے کی ماضی کی سیاسی حماقتوں، لن ترانیوں اور اپنی اپنی سوچ کے مطابق حصول اور تحفظ اقتدار کی خاطر فیصلوں اور چاہتوں کو لے کر بھی میدان سجانے کی کوشش کررہی ہیں۔
دونوں کی اس لڑائی کے نتیجہ میں فوری طور سے یہ عندیہ مل رہا ہے کہ ایک تو گپکار الائنس کا خاتمہ تقریباً طے ہے جبکہ دوسرا ملکی سطح پر اپوزیشن اتحاد کے نام پر انڈیا الائنس کی یہ دونوں شریک اتحادی اب جموںوکشمیر کے حوالہ سے اپنی اپنی راہیں جداکرنے کا فیصلہ کرچکی ہیں۔
بہرحال قصہ مختصر، دونوں کی تازہ ترین لڑائی ایک نقطہ پر چھڑ گئی ہے۔ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت بنائی جبکہ حکومت سازی کیلئے مفتی محمدسعید کو این سی اور کانگریس نے غیر مشروط حمایت کی پیشکش کی تھی لیکن حصول اقتدار اور اپنے اہداف کی تکمیل کیلئے پی ڈی پی نے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملادیا اور جموں وکشمیر لاکر اگست ۲۰۱۹ء کے جنم کی بُنیاد رکھی۔
عمر کے اس دعویٰ یا الزام کے جواب میں نہ صرف پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے نام لئے بغیر این سی کو یہ کہکر نشانہ بنایا کہ این سی اقتدارکی بھوکی ہے بلکہ پارٹی کے جموں نشین ایک لیڈر فردوس ٹاک نے چند قدم آگے بڑھ کر دعویٰ کیا کہ این سی نے اقتدارمیں شرکت کیلئے نئی دہلی کے ایک ہوٹل میں رات کی تاریکیوں میں بی جے پی قیادت کے ساتھ نشستیں منعقد کیں۔ کشمیرکی موجودہ سیاسی وزمینی صورتحال کے تناظرمیں دونوں پارٹیوں کے درمیان یہ گرم گفتاری ، طعنہ زنی اور سیاسی کردار کشی سے عبارت بلند وبالا دعوئوں کو عوامی سطح پر افسوس ناک اور شرمناک خیال کیا جارہاہے ۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ کشمیرکی رائے عامہ کو گائوں اور شہر ، مسلکوں اور نظریوں اور مختلف نوعیت کے سیاسی خانوں میںتقسیم درتقسیم کرنے کی ہر ممکن اور ہر سطح پر کوششیں ہورہی ہیں دونوں پارٹیوں کی لیڈر شپ کا ایک دوسرے کی مخاصمت، سیاسی کردار کشی اور طعنہ زنی خودان پارٹیوں اور ان سے وابستہ لیڈر شپ کیلئے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہونا چاہئے۔
سیاست میں کوئی پارٹی اچھوت نہیں ہے۔ ۲۲؍سال تک رائے شماری کی تحریک منظم کرکے چلانے کے بعد خود اس تحریک کے بانیوںنے اپنی ۲۲؍سالہ جدوجہد کو’صحرانوردی‘ قراردیا اور پھر اقتدارواپس حاصل کرنے کے بعد وقت کے قدآور لیڈر شیخ محمدعبداللہ نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ کوئی بھی ریاست کی حکومت مرکز میں برسراقتدار حکومت کے ساتھ پنگا لینے کی متحمل نہیں ہوسکتی بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مفاہمت کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنے میںہی دونوں کی عافیت ہے۔
اس سیاسی نظریے اور موقف کے تناظرمیں نیشنل کانفرنس کی لیڈر شپ نے ہر دورمیںمرکزمیں برسر اقتدار کانگریس کے ساتھ مل کر کام کیا، اس کے ساتھ معاہدے کئے یہاں تک کہ راجیو فاروق اتحاد بھی عمل میں لایاگیا، پھرا سی پارٹی نے مرکز میں برسراقتدار اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں حکومت میںشرکت کرکے اس کی اتحادی بنی، پھر جموں میونسپل الیکشن کے بعدکیوندر گپتا کی قیادت میں کونسل کا حصہ بنی، پھر کرگل ہل کونسل میں بھی بی جے پی کے ساتھ شریک اقتدار رہی۔ اس مخصوص تاریخی پس منظرمیں نیشنل کانفرنس کی قیادت کا پی ڈی پی پر بی جے پی کیساتھ حصول اقتدار کیلئے گٹھ جوڑ کا طعنہ غیر اخلاقی، غیر ذمہ دارانہ اور بے روزن ہے۔
البتہ پی ڈی پی بی جے پی کے ساتھ اپنے گٹھ جوڑ کو جس حساس نوعیت کے سیاسی اشو کے ساتھ منسلک کررہی ہے اور اس گٹھ جوڑ کا معقول طریقے سے دفاع نہیں کرپارہی ہے اور برعکس اس کے اسے مفتی محمدسعید کا مشن اوروژن کے طور پیش کرنے کی قدم قدم پر کوشش کررہی ہے اس میںکوئی دم نہیں۔اگر مفتی مرحوم کا واقعی وہ مشن اور سیاسی وژن ہی تھا تو پھر واجبی طور سے سوال تو یہ ہے کہ وہ محض تین سال کے اندر اندر ہی کیوں دم توڑ کر نا کام ہوا ؟ برعکس اس کے اس ناکامی کا عوامی سطح پر برملا اعتراف کرنے کیلئے کسی جرأت سے کام لیاجاتا پارٹی لیڈر شپ برابر اُس ناکام مشن اور وژن کو بازار میں لالاکر خریدار تلاش کررہی ہے۔
کوئی بھی سیاسی پارٹی اور سیاسی لیڈر یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ جو سیاست کررہاہے اُس سیاست کا مطمع نظرحصول اقتدار یا تحفظ اقتدارنہیںبلکہ محض عوامی خدمت کا جذبہ کارفرما ہے۔ اگر کوئی سیاست کا ر ایسا کوئی دعویٰ کربھی لے تو اس دعویٰ پر اعتبار نہیںکیاجاسکتا ہے ۔ کیونکہ کوئی بھی سیاست کار اپنے بارے میں متقی، پرہیز گار ،مخلص ، عوامی خدمت کے جذبہ سے سرشارنہیں۔ اگر مرحوم مفتی اقتدار کے بھوکے نہ ہوتے تو ۱۹۷۵ء میںاندر اشیخ اکارڈ کے بعد شیخ محمدعبداللہ مرحوم کی قیادت میں حکومت، جو کانگریس کی بیساکھیوں کے سہارے قائم تھی گردھاری لال ڈوگرہ کی مخالفت کے باوجود وہ سہارا چھین کر حکومت نہیں گراتے بلکہ اندرا شیخ اکارڈ کا احترام کرتے۔ لیکن نہیں کیا کیونکہ اقتدار کی چاہت سر چڑھ کر بول رہی تھی۔
پھر بحیثیت مرکزی وزیرداخلہ کشمیرکی صورتحال کے حوالہ سے ’بات بنے گی گولی سے ‘ کا نعرہ بلند کرکے سختی سے اس نعرہ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے لنگر لنگوٹے کس کر میدان میں نہ اُترتے اور وقت کے گورنر کے فیصلوں اور اقدامات کی پشت پناہی نہ کرتے۔ بے شک اقتدارمیں آنے کے بعد نعرہ کو ’’گولی سے نہیں بات بنے گی بولی سے‘ ‘ میںتبدیل کردیا لیکن تاریخ میںجو درج ہوچکا تھا، وہ درج رہا، اس کو تاریخ کے اوراق سے حذف نہیں کر ایا جاسکتا ۔
دونوں پارٹیوں … نیشنل کانفر نس اور پی ڈی پی ماضی اور حال میں فی الوقت مرکز میں برسراقتدار بی جے پی کی کسی نہ کسی حوالہ سے اتحادی اور شکمی شریک رہی ہیں لہٰذا اس مخصوص گٹھ جوڑ کو لے کر ایک دوسرے کی طعنہ زنی اور کردارکشی کا راستہ اختیار کرنا دونوں کی سیاسی اور اخلاقی پستی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ خود بی جے پی کی اے ، بی یا سی ٹیموں کی حیثیت سے گٹھ جوڑ کے بعد دوسری پارٹیوں کو بی جے پی کی شکمی شریک اور درجہ بندی کرکے ٹیمیں قرار دے کر پیش کرنے کابھی کوئی اخلاقی اور سیاسی جواز نہیں۔ الیکشن لڑنا ہے اور عوام کی تائید و حمایت حاصل کرنے کیلئے عوام کو درپیش مختلف نوعیت کے سیاسی، معاشی اور دوسرے اشوز کو سنجیدگی اور نیک نیتی سے ایڈریس کرکے ان کا آبرومندانہ حل تلاش کرنا سیاسی جماعتوں کا بُنیادی ایجنڈا ہونا چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔