کشمیربھی اور کشمیری بھی کشمیر نشین مختلف نظریات ، عقیدوں ، موقفوں اور باہم متصادم سیاسی لن ترانیوں کے جملہ حقوق کے مالک سیاستدانوں کے مشکور ہیں کہ وہ لوگوں سے کچھ بھی نہیں چھپا رہے ہیں، ایک دوسرے کے بارے میں سچ سچ بول کر وہ کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہورہے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ سچ بول کر وہ لوگوں کو اپنے ظاہر، باطن، رات کی تاریکیوں میںاپنی سیاسی اور غیر سیاسی سرگرمیوں ، جو ضروری نہیں کہ وہ سب کی سب سرگرمیاں ان کی کسی سوداگری سے ہی تعلق رکھتی ہوں،اپنے اعتماد میں لے رہے ہیں۔
برصغیر کی سیاسی تاریخ، سیاسی چال چلن اور سیاسی منظرنامہ کے حوالہ سے دیکھیں تو ایسا منظرنامہ پاکستان کے سیاستدانوں کا اب تک کا طرۂ امتیاز رہا ہے، خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کے اس سیاسی کلچر کا انفیکشن ڈرون کے ذریعے کشمیر تک آخر پہنچ ہی گیا، ورنہ یہ تو اب تک سو پردوں کی اوٹ میں چھپا تھا اور کشمیری عوام اپنے سروں پر سوار ہر سیاستدان کو زبان، کردار، عمل اور نیت کا سچا اور پکا ہی تصور کررہا تھا ۔
گذشتہ سو سال کے دوران کشمیرکی سیاست میں اُبھرے صرف ایک سیاستدان واحد ایسے نظر آتے رہے کہ جنہوںنے اپنے کسی سیاسی مخالف کی عوامی سطح پر زیادہ تنقید نہیں کی، البتہ چونکہ دوستی کی آڑ میں انہیں کچھ سیاسی دوستوں نے کچھ زہر کے گھونٹ پلا دیئے تھے اور خاص کر وہ جو ان کے سیاسی مشن کی راہ میں حائل ہونے کی ہروقت کوشاں رہا کرتے تھے ۔ مرحوم اپنے سیاسی قد کا بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے کبھی ان سے ’ترک موالات‘ کا راستہ اختیار کرتے، وقت ضرورت ان میں سے کچھ کو ’گندی نالیوں کا کیڑہ‘ قرار دے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالا کرتے، تو کبھی کسی مخالف کو’آئی بی کا ایجنٹ‘ قرار دیا کرتے تھے۔
لیکن اب جو نئی اور پرانی فصل پر مبنی سیاستدانوں کی فصل اور نسل جلوہ گر ہے وہ قدرے انوکھی ہے، بات کرتی ہے تو کھل کر کرتی ہے، کچھ بھی نہیں چھپاتے، سب کچھ اُگل دیتے ہیں اور اس اگلنے کے دوران بسا اوقات ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان لوگوں پر قئے کا برص اور مرض مسلط ہوچکا ہے اور یہ قئے اب ان سے رو کی نہیں جاتی۔
اس تعلق سے کشمیری عوام بحیثیت مجموعی اپنی پارٹی کے سربراہ الطاف بخاری ، نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ ، سابق کانگریس لیڈر غلام نبی آزاد، موجودہ کانگریس لیڈر وقار رسول، سابق عسکری لیڈر اور محبوبہ مفتی کی قیادت میں کچھ سال قبل بنی بی جے پی اور پی ڈی پی پر مشتمل مخلوط حکومت میں بی جے پی کوٹہ سے وزارتی عہدہ پر متمکن رہے سجاد غنی لون وغیرہ وغیرہ کے خاص طور سے ممنون ومشکور ہیں جو وہ کھل کر میدان میں اُتر کر ایک دوسرے کی چولیوں کے پیچھے جو کچھ بھی ہے کو بیان کرکے لوگوں کو محذوظ بھی کررہے ہیں اوران کی جانکاری کا کچھ سامان بھی فراہم کررہے ہیں۔
اگر چہ وہ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں اس میں سے بہت سارا عوام کی جانکاری میں پہلے سے ہی ہے لیکن یاد دہانی کا فریضہ اداکرکے اس جانکاری کی ٹمٹما تی لو کو سہار ا دے رہے ہیں۔ کشمیر کے ان سیاسی شہسواروں کے اس سیاسی مسخرے سے ضرور کچھ سیاسی مسخرے محذوظ ہوکر اور ان کے جلسوںجلسیوں میں شرکت کرکے تالیاں بجاتے دکھائی دے رہے ہوں لیکن عوام کا حساس اور سنجیدہ طبقوں کے چہروں پر دور سے ناگواری کے تاثرات اُبھرتے ضرور نظرآتے ہیں۔
سیاستدانوں کے ماضی کے کردار وعمل اور سیاسی لن ترانیوں سے عبارت ان کے اپروچ اور انداز فکر کے مخصوص تناظرمیں ہم ہمیشہ انہی کالموں میں بار بار یہ کہنے اور باور کرانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ جو کوئی بھی سیاستدان ، چاہے وہ کسی بھی سیاسی مکتب سے وابستہ ہے، کیوں یہ اُمید رکھ رہا ہے کہ ووٹر اس کے حق میں اپنا اعتماد اور منڈیٹ تھمادے گا۔ اس سیاسیدان سے بار بار تو یہی سوال کیاجاتا رہا کہ وہ کم سے کم یہ تو بتادیں کہ اس نے عوام کیلئے اب تک کیا کیا او روہ کون سا کارنامہ ہے یا عوامی خدمت کے تعلق سے اسے جس پر فخر ہے اس کو ملحوظ نظر رکھ کر لوگ آنکھیں بند کرکے یہ خواہش کریں کہ وہ حکومت کی کمان سنبھال لیں۔
جو لوگ گذشتہ ۷۵؍ برس کے دوران اقتدارمیںرہے، شریک اور قربت اقتدار رہ کر اپنے لئے مراعات حاصل کرتے رہے، اپنے منظور نظروں اور خاندانوں کے گھرانے آباد کرکے اہل کے حقوق اور مستحقین کے مفادات پر شب خون مارتے رہے، کورپشن اور بدعنوانیوں کی سرپرستی کرکے اربوں کی جائیدادیں اور اثاثے بٹورتے رہے، ریاست کے وسیع ترمفادات کا سودا کرکے اور حقو ق اور اختیارت کو سرنڈر کرکے اپنی سیاسی خباثت کو پروان چڑھاتے رہے اور پھر جب پیٹ کی مکمل بھرائی ہوئی تو راستے بدل کر کوئی بندوق کا سرغنہ بنا، کوئی بندوق والے کی سرپرستی کرکے اس کیلئے ’حوالہ ‘ کا کردارادا کرتا رہا جبکہ ایک سیاسی طبقہ خود کو دہلی کا ملازم ثابت کرنے پرایڑی چوٹی کا زور لگا تا رہا تو دوسرا سیاسی طبقہ سرحد کے اُس پار کا وفادار ملازم ثابت کرنے کیلئے سرزمین کشمیر پر مارنے اور مروانے کا مخصوص کردار ادا کرتا رہا۔
لیکن یہ سارے سیاسی پیشہ ور اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور کرتبوں کے ساتھ ایک نئے انداز میں جلوہ گر ہورہے ہیں اور ایک دوسرے کو تنقید اور اپنی ہدف کا نشانہ بنا کر تذلیل کرنے کی ہرممکن کوشش کررہے ہیں۔ انہیں ایک دوسرے کی طعنہ زنی، لعنت وملامت کا بھر پور اختیار بھی حاصل ہے اور پیدائشی حق بھی لیکن گندگی، غلاظت اور کوڈا کرکٹ سے لت پت یہ نیا چوغہ زیب تن کرکے معاشرتی اقدار کواُس پاکستانی معاشرتی انداز سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش نہ کریں جس معاشرے کے اقدار کو اُس کے ایک سابق وزیراعظم نے بطور شکست خوردہ سیاستدان کو گندگی ، غلاظت اور کوڈا کرکٹ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے۔
کشمیرکی عصری اور کچھ حد تک ماضی قریب کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کشمیر قاضی گنڈ سے کھادن یا ر تک اتحاد واتفاق کے حوالہ سے ایک سیسہ پلائی دیوار کی مانند تھا، موئے مقدس ﷺ کی گمشدگی کے دوران فکر وعمل ، جسم اور روحوں کے اس عظیم اتحاد کا مظاہرہ چشم بینا دیکھ چکی ہے ،ا س کے بعد پھر کئی ایسے مواقع آئے جب لوگ اپنے اس اتحاد کا مظاہرہ کرتے رہے لیکن اس اتحاد اور اُس کشمیر کو نہ جانے کس بدبخت سیاستدان کی نظر بد لگ گئی کہ نہ صرف اس اتحاد کو پارہ پارہ کرکے رکھدیاگیا بلکہ کشمیر اور کشمیری عوام کو گائوں اور شہر کے نام پر تقسیم درتقسیم کرکے بھی رکھدیا گیا اور اب اس تقسیم درتقسیم کی آڑ میںسیاسی خانہ جنگی کی تاریں ہلانے کی مذموم کوششیں غالباً حساس اور سنجیدہ نگاہوں سے پوشیدہ نہیں!!