جمعہ, مئی 9, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

ڈائیگنوسٹک لیبارٹریوں کی اعتباریت مجروح

آپسی ملی بھگت ،کشمیرتجربہ گاہ میں تبدیل 

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2023-11-05
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

سردیوں کا آغاز کے ساتھ ہی کشمیرکے چند سرکردہ ڈاکٹروں نے لوگوں کو مشورہ دیا کہ وہ مختلف امراض سے خود کو محفوظ رکھنے اور اپنے اندر قوت مدافعت کو تقویت پہنچانے کیلئے ویکسین لگوائیں۔ معالجین کا یہ مشورہ کوئی نیا ہے اور نہ حیرانی کا موجب بلکہ ہر سال سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی اکتوبر سے ہی ویکسین کی تلاش شروع ہوجاتی ہے۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق یہ ویکسین سینکڑوں میںنہیں بلکہ ہزاروں لوگ باالخصوص وہ جو امراض سینہ ، سی او پی ڈی وغیرہ بیماریوں سے جھوج رہے ہیں ہر سا ل اس اُمید پر لگواتے ہیں کہ وہ بیماریوں کے حملوں سے محفوظ رہ سکیں اور قوت مدافعت میں بھی اضافہ ہوسکے۔
لیکن جو دکھتا ہے وہ کچھ ہے اور جو نہیں دکھتا وہ پردوں کی اوٹ میں ہے۔ جس ویکسین کی معالجین کی طرف سے سفارش یا جس کو تجویز کیاجارہاہے مارکیٹ میںاس کی قیمت کسی معمہ سے کم نہیں ۔ ہرسال دوا ساز کمپنیوں کی جانب سے اس مخصوص ویکسین کی قیمت میں بھاری اضافہ کیاجارہاہے۔ گذشتہ ۵، ۶؍برسوں کے دوران اس مخصوص ویکسین کی ایم آر پی جو چھ سو روپے کے آس پاس تھی اب بڑ ھ کر ۲۲؍ سو روپے سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ یہ ویکسین مخصوص امراض میں مبتلا افراد کیلئے قدرے زندگی بخش کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن نہ دوا ساز کمپنیوں کو اس کا احساس ہے اور نہ مرکزی سرکار جو عام اور اوسط ادویات کے علاوہ زندگی بخش ادویات پر بھی بھاری ٹیکس وصول کررہی ہے۔ یہ قیمت اوسط درجے کے مریضوں کی قوت استعداد سے باہر ہے جس کے پیش نظر اب مریضوں کی اچھی خاصی تعداد اس کے استعمال سے اجتناب کرتی جارہی ہے۔ یوں اس کی بڑھتی قیمتیں اب لوگوں کیلئے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
کشمیر نشین جو معالجین لوگوں کو اس مخصوص ویکسین کے استعمال کا مشورہ دے رہے ہیں وہ بادی النظرمیں عوام کی بہت بڑی خدمت تو کرتے ہیں لیکن ان کی بڑھتی قیمتوں پروہ خاموش ہیں۔ جبکہ خود انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ جو ایم آر پی ویکسین پر درج ہے اس سے کم قیمت پر بھی اِدھر اُدھر سے یہ دستیاب ہے۔ یہ تضاد نہیںہونا چاہئے تھا لیکن تضاد برقرار ہے بلکہ تسلسل کے ساتھ موجود ہے۔
ادویات کی کھپت، ادویات کے استعمال، ادویات کی خرید وفروخت کے حوالہ سے جو منظرنامہ کشمیرمیں حالیہ چند برسوں کے دوران اُبھر کر سامنے آچکا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہی احساس ہوتا ہے کہ سرزمین کشمیرکو ہندوستان کی دوا ساز کمپیوں نے ایک وسیع تجربہ گاہ کے طور اختیار کرلیا ہے۔ موثر اورغیر موثر ہر طرح کی ادویات کو کشمیرکی تجربہ گاہ میںتجزبہ کے مراحل سے گذارا جارہا ہے اور اس کام میں کشمیرمیں مخصوص ذہنیت کے حامل ڈاکٹروں کی ایک نسل ان دوا ساز کمپنیوں کی عملی معاونت کررہی ہے۔ اس معاونت کے عوض انہیں مختلف نوعیت کی مراعات فراہم کی جارہی ہیں۔
کشمیر کے اطراف واکناف میں ڈائیگنوسٹک مراکز اور ٹیسٹنگ لیبارٹریوں کا ایک وسیع جال بچھایا گیا ہے۔ بظاہر ان مراکز کا قیام عوام باالخصوص ضرورت مندوں کی تشخیص سے وابستہ معاملات کے حوالہ سے ایک سراہنے اقدام اور خدمت کے زمر ے میں آتا ہے لیکن جو معاملات اب بتدریج سامنے آرہے ہیں وہ باعث تشویش بن رہے ہیں جبکہ بعض سرکردہ ڈائیگنوسٹک مراکز کی اعتباریت اور اعتماد کے آگے سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔ مختلف ٹیسٹوں کے نتائج کا موازنہ جب دوسری کسی لیبارٹری سے حاصل نتائج سے کیاجارہاہے تو دونوں میں آسمان وزمین کافرق واضح طور سے سامنے آرہاہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اگر آج کی تاریخ میں کوئی مخصوص ٹیسٹ دو مختلف لیبارٹریوں کی وساطت سے کرائیں جائیں تو نتائج بالکل ایک دوسرے سے متصادم اور مختلف ہوں ؟ پھرا ن باہم متضاد تشخیصی نتائج کے نتیجہ میں مریض پر پڑنے والے نفسیاتی اثرات کے سنگین مضمرات بھی برآمد ہورہے ہیں۔ لیکن بُنیادی سوال یہی ہے کہ ایسے مراکز کی اعتباریت کے آگے سوالیہ نشانات کو کوئی اتھارٹی نہ سنجیدگی سے لے رہی ہے اور نہ ہی ڈاکٹر جو ان مخصوص لیبارٹریوں اور تجزیاتی مراکز کی وساطت سے ہی ٹیسٹ کرانے پرا صرار کررہے ہیں کی طرف سے کسی تشویش کا اظہار کہیں نظرنہیں آرہا ہے ۔ ایسا کیوں؟
جہاں تک محکمہ صحت عامہ کی اکائی ڈرگ اتھارٹی کا تعلق ہے تو اس کی کارکردگی اور فرض شناسی کے آگے بھی جو سوالیہ اب ایک عرصہ سے ہیں بھی اس مخصوص اشو کو کسی سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے۔ ان مراکز کی طرف سے وصول کئے گئے چارجز کی بات نہیں کررہے ہیں جو مراکز کی طرف سے من مانے ہیں بلکہ تشخیصی نتائج کے حوالہ سے مریضوں کیلئے جو مسائل اور اُلجھنیں پیدا ہوتی جارہی ہیں ان کی بات کررہے ہیں۔ کوئی تو جواب دہ ہونا چاہئے، مراکز کی اعتباریت پر کسی اتھارٹی کی نگاہ ہونی چاہئے، کشمیر میں فساد اور تخریب پر اگر ہر ادارے کی نگاہ اور مکمل توجہ ہے تو کشمیر اسی حد تک محدود نہیں بلکہ معاشرتی اور انتظامی سطح پر بھی سنگین نوعیت کے مسائل ہیں، غالباً متعلقہ اتھارٹیز کی جانب سے نرم روی یا عدم مداخلت کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ٹیسٹنگ مراکز ناجائز فائدہ اُٹھاکر لوگوں کو نہ صرف لوٹ رہے ہیں بلکہ اب غلط نتائج مریضوں کے ہاتھ میں تھما کر اپنے ناجائز اور بدترین استحصال سے عبارت دھندہ کو آگے بڑھارہے ہیں۔ ڈاکٹرا س لئے خاموش ہیں کہ انہیں کمیشن مل رہا ہے۔ یہ کمیشن جہاں ادویات کی تجویز کے حوالہ سے دوا ساز کمپنیوں کی طرف سے ادا کیاجارہاہے وہیں ڈائیگنوسٹک مراکز بھی ان کا حصہ انہیں مبینہ طور سے اداکررہے ہیں۔ یہ عام تاثر ہے ، معلوم نہیں کہ اس تاثر میں کس حد تک صداقت ہے یا کس حد تک مفروضوں پر مبنی ہے۔کیونکہ عام طور سے لین دین کے وقت شہادت مطلوب نہیں ، یہ ٹیبل کے نیچے سے مکمل رازداری سے ہورہاہے۔
کیا لیفٹیننٹ گورنر منوج سہنا کی سرپرستی میںموجودہ ایڈمنسٹریشن سے وابستہ متعلقہ ادارہ کو ان سارے معاملات، جن کاتذکرہ اور حوالہ یہاں آیاہے، کے تعلق سے حرکت میں لایا جائے گا تاکہ لوگوں کو کچھ حدتک سکون اور راحت حاصل ہوسکے۔ یہ امر محتاج وضاحت نہیںکہ جموں وکشمیر میں شعبہ صحت عامہ اور اس کی مختلف اکائیاں ہر دورمیں مختلف غلط اور صحیح معاملات کے حوالہ سے خبرو نظر میں رہی ہیں۔ لیکن زیادہ تر اس کی لن ترانیوں اور غلط کاریوں کی وجہ سے ہی یہ عوام کی توجہ میں رہا ہے۔ چاہے سرکاری سطح پر ادویات کی خریداری کے حوالہ سے قائم کارپوریشن کا رول اور اپروچ رہا ہویا ناجائز سرپرستی کے معاملات رہے ہیں، کوئی بھی ایک کل اس اہم شعبہ کی سیدھ نہیں رہی ہے۔ اب جبکہ اصلاحات کا عمل جاری ہے صحت عامہ کا شعبہ اور اس کی تمام تر اکائیاں بھی اصلاحات کا تقاضہ کررہی ہیں۔ کیونکہ ان اصلاحات کا تعلق اوسط شہری کے صحت، سلامتی اور بقاء سے جڑا ہے۔
ShareTweetSendShareSend
Previous Post

اس حکم نامے کی کیا واقعی ضرورت تھی؟

Next Post

ورلڈ کپ سیمی فائنل سے پہلے بھارتی ٹیم کو بڑا دھچکا

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
سال 2022 کے ٹیسٹ میچوں میں وراٹ اور راہل بری طرح ناکام ، رشبھ پنت بہترین بلے باز

ورلڈ کپ سیمی فائنل سے پہلے بھارتی ٹیم کو بڑا دھچکا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.