سیاسی اور کچھ دیگر مصلحتوں کے تحت تاریخ کو بدلنے اور تاریخی حقائق کو ان کے سیاق وسباق سے ہٹ کر اور توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی عموماً کوششیں یا تو سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے مشاہدہ میں آتی رہی ہیں یا ان خود ساختہ تاریخ دانوں کی جانب سے مشاہدہ میں آتی رہی ہے جو اپنی آنکھوں پر اپنی پسند اور ناپسند کی بلکہ متعصبانہ عینک لگا کر اپنی جاہلیت سے عبارت انداز فکر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
جموں وکشمیر کے حوالہ سے تاریخ اور تاریخی حقائق کو عموماً توڑ مروڑ کر اور سیاق سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی بہت ساری روایتیں اب تک مشاہدے میں آچکی ہیں اور فی الوقت بھی آرہی ہیں۔ کشمیر کے تعلق سے کئی حلقے خود کو بطور سٹیک ہولڈر کے پیش کرکے کچھ ایسے دعویٰ بھی کرتے رہتے ہیں جن دعوئوں کا کوئی وجود ہے اور نہ بُنیاد۔ مثال کے طور پر پاکستان نے جموںوکشمیر کے ایک بڑے خطے کو اپنے قبضے میں لینے کے بعد اس کا ایک حصہ اکسائی چن چین کے حوالہ کردیا۔ چین اب اس علاقے کو اپنا قراردے کر اصلی سٹیک ہولڈروں کے دعوئوں کو بے بُنیاد قرار دے کر جھٹلا رہا ہے۔
۲۶؍اکتوبر کو یوم الحاق کی مناسبت سے کئی ایک تقریبات کا اہتمام ہوا۔ سیاستدانوں، زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ سرکردہ شخصیتوں اور دوسرے لوگوں نے ان تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ کچھ مقررین یا شرکا ء نے یوم الحاق کی مناسبت سے اپنے خیالات کا بھی اظہار کیا۔ لیکن خیالات کا اظہار کرتے وقت ان حضرات نے غالباً دانستہ اور شعوری طور سے غلط بیانی سے کام لیا اور دعویٰ کیا کہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے دور اندیشی اور اپنے تدبر سے کام لیتے ہوئے جموں وکشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کرکے تاریخ رقم کردی۔ ان لوگوں کا یہ نریٹو جسے دعویٰ بھی کہاجاسکتا ہے نہ صرف یکطرفہ ہے بلکہ حقائق کی ضد بھی ہے۔
مہاراجہ ہری سنگھ تقسیم ہندوستان کے وقت جموں وکشمیر کو ایک آزاد اور خودمختار مملکت کے طور پر خطے اور دُنیا کے نقشے پر دیکھنے کے متمنی تھے۔ اپنے اس مخصوص نظریہ اور موقف پر وہ اُس وقت تک ڈٹے رہے جب تک کہ پاکستان کے کچھ فوجی جنرلوں کی قیادت میں قبائیلوں نے جموں وکشمیر پر حملہ کردیا، لوٹ مار مچائی اور قتل وغارت کا بازار گرم کرتے کرتے سرینگر تک بھی پہنچ گئے۔ کشمیرکے اُس وقت کے قدآور لیڈر شیخ محمدعبداللہ کی قیادت میںلوگ سڑکوں پر نکل آئے اور قبائیلوں کی پیش قدمی کی راہ میں مزاہم ہوئے۔’’حملہ آور خبردار۔ ہم کشمیری ہیں تیار‘‘ کی للکار کشمیرکے طول وارض میں گونجتی رہی۔ اس حوالہ سے تاریخ معاملات اور پیش آمدہ واقعات سے بھری پڑی ہے۔
صورتحال سنگین ہوئی تو مقابلہ کرنے کیلئے ہندوستان سے مدد کیلئے رجوع کرلیاگیا، لیکن فوجی امداد فراہم کرنے کافیصلہ لینے سے قبل مہاراجہ کو اس شرط سے آگاہ کیا گیا کہ وہ پہلے ہندوستان کے ساتھ دستاویز الحاق پر دستخط کریں ۔ مہاراجہ نے یہ شرط قبول تو کی لیکن ہندوستان کی قیادت نے اس شرط کو شیخ محمدعبداللہ کی حمایت سے مشروط کردیا۔ شیخ محمدعبداللہ نے اس دستاویز الحاق کو منظور کرانے کیلئے خود ہندوستانی قیادت سے بات کی اور ہنگامی بُنیادوں پر فوجی امداد کی درخواست کی ۔ جو قبول کی گئی۔
اس مخصوص تناظرمیں مہاراجہ کو الحاق کا خالق اور علمبردار کے طور آج کی تاریخ میں پیش کرنا تاریخ کو مسخ کرنے کی دانستہ بلکہ شعوری کوشش قرار دیاجاسکتا ہے ۔ اس پس منظر میں یہ سوال تو کیا جاسکتا ہے کہ اگر شیخ محمدعبداللہ الحاق کی توثیق اور حمایت نہ کرتے توصورتحال کیا ہوتی لیکن شیخ محمدعبداللہ کے بارے میں یہ بات پہلے سے واضح تھی کہ وہ پاکستان سے الحاق کے حامی نہیں تھے اور محمدعلی جناح کے ساتھ ان کے شدید اختلافات تھے۔حالانکہ بخشی غلام محمد اور غلام محمد صادق غالباً یہی دو شخصیتیں تھیں کو مستقبل کا تعین کرنے کیلئے پاکستان بھیجا گیا تھا اور ان کی واپسی کا انتظار کئے بغیر الحاق کا فیصلہ لیاگیا۔
لہٰذا جو لوگ آج کی مصلحتوں کے پیش نظر کوئی اور نریٹو وضع کرکے پیش کررہے ہیں وہ تاریخ کے ساتھ وفا نہیں کررہے ہیں اور جو لوگ بحیثیت ذمہ دار ہندوستان کے ساتھ الحاق کے حامی نہیں تھے لیکن انہیں الحاق کے حامی، علمبردار اور دور اندیش سیاستدانوں کے طور پیش کرنا اور شیخ محمدعبداللہ جیسے سیاستدانوں جو الحاق کے حامی اور علمبردار تھے کو حاشیہ پر رکھنے کی کوشش کرکے اپنی کم ظرفی اور سیاسی جاہلیت کا ہی مظاہرہ کررہے ہیں۔
اسی طرح کنٹرول لائن کے اُس پار جموں وکشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق کے حوالہ سے کوئی اور ہی نریٹو وضع کرکے پیش کیاجاتا رہا ہے۔ پاکستان کے سیاستدان اور اُس ملک کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے ابھی چند گھنٹے قبل ۲۶؍ اکتوبر کی مناسبت سے اپنے اس نریٹو کا اعادہ کیا کہ ’’بھارت طاقت کے بل پر جموںوکشمیر پر ۷۶؍ برس سے قابض ہے‘‘ اس تعلق سے لوگوں سے یوم سیاہ بھی منوایا گیا۔
پاکستان کا یہ موقف تاریخی حقائق سے متصادم ہے۔ اگر مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان کے ساتھ جوں کا توں معاہدہ کررکھا تھا تو پاکستان نے اپنی سیاسی عجلت اور سیاسی جاہلیت کا راستہ اختیار کرکے لٹیروں کے مسلح دستوں کو کشمیر پر چڑھائی کرنے کیلئے کیوں روانہ کردیا۔ پھر ان لٹیروں اور لشکریوں کا جو حشر ہوا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ لیکن پاکستان کی سیاسی ،مذہبی قیادت اور نان سٹیٹ ایکٹرس تاریخ کے اس سچ اور اپنی ناعاقبت اندیشی پر نگاہ رکھے بغیر ’قبضہ‘ کی راگنی الاپتے جارہے ہیں۔
پھر ۱۹۶۵ء میں اپنی اسی حماقت کا اعادہ کرتے ہوئے دراندازوں کو کشمیر میں گھسایا ، ان میں سے کچھ پکڑے گئے، کچھ مارے گئے اور جو باقی بچے وہ سرحد پار کرکے واپس چلے گئے۔ اپنی فطرت ثانی اور توسیع پسندانہ اپروچ کو اپنا نصب العین قرار دیتے ہوئے ۱۹۸۹ء کی عسکری تحریک کو جنم دیاگیا۔ کیا کشمیری عوام کی اکثریت نے سرحد پار کے فیصلہ سازوں کو یہ منڈیٹ دیا تھا کہ وہ ان راستوں کو اختیار کرے؟ جواب نفی میں ہے۔ اگر چہ اس مخصوص سوال کے سینکڑوں پہلو اور رُخ ہیں۔
بہرحال اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہے کہ گذرے ۷۵؍ برسوں کے دوران حالات میں بھی تبدیلی آتی رہی اور خطے کا نقشہ بھی اپنا رنگ اور ہیت بدلتا رہا۔ کشمیر اس بدلائو سے مستثنیٰ نہیں ۔ سیاستدانوں اور دوسرے متعلقہ افراد اور اداروں کو یہی مخلصانہ مشورہ دیاجاسکتا ہے کہ تاریخ اور تاریخی واقعات کو اپنی اندھی سیاسی مصلحتوں کے تحت مسخ کرنے کا راستہ اختیار نہ کرتے ہوئے اپنے قدم زمین پر رکھنے کو ترجیح دیں اور جو نریٹو اختراع کرکے پیش کئے جارہے ہیں ان میں کشمیریوں کی دانستہ کردارکشی کی بھی بو محسوس کی جارہی ہے۔