فرانس اور بھارت نے یوکرین میں فوری طور پر مظالم ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا تاہم بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بار پھر اپنے پڑوسی ملک پر روسی جارحیت کی مذمت نہیں کی۔غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق بھارت، جو کہ زیادہ تر فوجی ساز و سامان روس سے درآمد کرتا ہے، کی طویل عرصے سے مغرب اور ماسکو کے معاملے پر سفارتی کشمکش جاری ہے اور خاص طور پر روسی جارحیت کی مذمت سے انکار کرتا آیا ہے اور اس نے روس کی جانب سے یوکرین پر کارروائیوں کے خلاف اقوام متحدہ میں ووٹ بھی نہیں ڈالا۔مودی اور فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے فرانس میں بات چیت اور عشایے کے بعد مشترکہ بیان میں کہا کہ فرانس اور بھارت، یوکرین میں جاری انسانی بحران اور مظالم پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔
دونوں ملکوں نے غیر واضح طور پر اس حقیقت کی مذمت کی کہ یوکرین میں عام شہری مارے گئے ہیں اور یوکرین میں فوری طور پر مظالم ختم کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ دونوں فریق ایک دوسرے کے قریب آسکیں اور مذاکرات اور سفارتکاری کو فروغ مل سکے اور لوگوں کی پریشانیوں کا فوری طور پر خاتمہ ہوسکے۔تاہم صرف فرانس نے یوکرین کے خلاف روسی افواج کی غیر قانونی اور بلاجواز جارحیت کی مذمت کی۔
دونوں ملکوں نے کہا کہ وہ مربوط اور کثیرالجہتی انداز میں جواب دیں گے، یہ تنازع عالمی خوراک کے بحران کے خطرات کو بڑھا دے گا کیونکہ یوکرین گندم پیدا کرنے واالا دنیا کا اہم ملک ہے۔
میکرون کے دفتر نے ملاقات سے قبل بتایا کہ وہ مودی کو عالمی نظام کے لیے یورپی یونین سمیت ایشیا کو جنگ کے منفی نتائج سے آگاہ کریں گے۔حکام نے بتایا کہ فرانس، بھارت کو روسی ہتھیاروں اور توانائی سے ہٹ کر متبادل رسد کے لیے مدد کرنا چاہتا ہے۔بیان میں کہا گیا کہ اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ بھارت کو کوئی راستہ نہ ملنے کے لیے چھوڑنا نہیں ہے بلکہ حل پیش کرنا ہے۔یورپ کے دورے پر موجود نریندر مودی نے صحافیوں کو جرمن چانسلر اولاف شولز سے ملاقات کے بعد بتایا تھا کہ اس جنگ کا فاتح کوئی نہیں ہوگا ۔
لیکن نقصان ہر کسی کا ہوگا۔رانسیسی صدارتی محل (اِلیسی) نے کہا کہ میکرون کے مودی کے ساتھ تعلقات میں انتہائی گرمجوشی ہے، مودی نے 2017 سے اب تک تین بار فرانس کا دورہ کیا ہے جبکہ فرانسیسی رہنما نے 2018 میں بھارت کا دورہ کیا تھا۔
مودی نے میکرون کو دوبارہ بھارت کا دورہ کرنے کی دعوت دی تاکہ دفاعی ٹیکنالوجی اور صاف توانائی پر منتقلی پر تعلقات کو مزید مضبوط کیا جاسکے۔
جب مودی الیسی محل پہنچے تو دونوں رہنما بغل گیر ہوئے اور تصاویر بنوائیں، میکرون کی اہلیہ بریگیٹ نے بھی مودی کا استقبال کیا۔
اجلاس میں جاتے وقت حکام نے فرانس کے بھارت کے ساتھ تعلقات کو ’بھروسہ مند‘ قرار دیا اور مشترکہ بیان میں اس بات کی توثیق کی گئی کہ دونوں ممالک اسٹریٹیجک فرانس۔بھارت شراکت داری کو مضبوط کرنے کے خواہشمند ہیں خاص طور پر بھارت ۔ بحرالکاہل خطے میں۔
فرانس کا اس خطے میں مقام حاصل کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ برطانیہ، امریکا اور آسٹریلیا نے گزشتہ سال ’اے یو کے یو ایس‘ سیکیورٹی معاہدہ کیا تھا، اس شراکت داری نے کینبرا کی اگلی جنریشین کی فرانسیسی آبدوزیں فراہم کرنے کا منافع بخش معاہدہ ختم کر دیا تھا۔
بھارت، فرانس سے درجنوں رافیل جنگی جہاز اور چھ آبدوزیں خرید چکا ہے اور پیرس کے ساتھ سول نیوکلیئر پروجیکٹ میں تعاون کر رہا ہے۔
فرانس کی سرکاری ملکیتی توانائی کی بڑی کمپنی ’ای ڈی ایف‘ بھارت کے مغربی ساحل جیتپور میں 6 جدید ای پی آر ری ایکٹرز تعمیر کرنا چاہتا ہے۔
الیسی نے کہا کہ وہ اس معاہدے کے لیے زور دے رہا ہے جو میکرون کے گزشتہ ماہ دوبارہ انتخاب سے قبل کیے جانے والے وعدے کے مطابق ہے کہ وہ فرانس کی جوہری صنعت کو جدید اور پرانے پاور پلانٹس کو تبدیل کریں گے۔