جموںو کشمیر میں اگلے چند دنوں میں میونسپل کارپوریشنوں اور دیگر بلدیاتی اداروں کی پانچ سالہ مدت اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ جس کے نتیجہ میں ان کا رپوریشنوں اور دیگر بلدیاتی اداروں سے وابستہ سربراہان اور ارکان اپنی تمام تر مراعات، سکیورٹی، سہولیات کے ساتھ ساتھ پروٹوکول سے محروم ہوجائیںگے۔
عام معمول یہ ہے کہ مقررہ معیاد کے اختتام سے قبل ہی نئے انتخابات کا اہتمام وانعقاد ہوتا رہا ہے لیکن مدت ختم ہونے کو قریب آرہی ہے نئے انتخابی شیڈول کا کہیں اتہ پتہ نظرنہیں آرہا ہے۔ ان اداروں کے انتخابات کب ہوں گے اس بارے میں بھی کوئی جانکاری دستیاب نہیں ہے البتہ قیاس یہ کیا جارہاہے کہ فی الحال ایڈمنسٹریشن کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے اگر چہ مختلف نظریات کی حامل سیاسی پارٹیاں ان انتخابات میں اپنے اُمیدوارمیدان میں جھونکنے کیلئے ابھی سے تیار ہیں۔
میونسپل ، بلدیاتی یا پنچایتی ادارے ہوں تو جمہوری طرز نظام کی سمت میں بُنیادی اور کلیدی اہمیت کا حامل اور پہلا ستون تصور کیاجارہاہے۔ پانچ سال قبل ان اداروں کے لئے انتخابات کا انعقاد عمل میں لایاگیا۔ عوام کو بحیثیت مجموعی بہت ساری توقعات تھی کہ انتخابات کے بعد منتخبہ ارکان عوام کو درپیش بلدیاتی مسائل کا حل تلاش کرنے کواپنی ترجیح تصور کرکے اپنی آئینی اور انتظامی ذمہ داریوں کو بہ احسن خوبی انجام دیا کریں گے جبکہ ان فرائض کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر میں جمہوریت کی بُنیادوں کو مستحکم ومضبوط کرکے جمہوری ڈھانچہ کو عوام کی آمنگوں اور خواہشات کے عین مطابق اپنا کردار اداکریں گے۔
لیکن عوام کی ان میں سے کوئی ایک بھی توقع پوری نہیں ہوسکی ہے۔ اس کے برعکس جہاں عوام کو درپیش ڈھیر سارے بلدیاتی مسائل آج کی تاریخ میں بھی اُسی مقام پر ہیں جس مقام پر ۵؍سال قبل ان کے انتخاب کے وقت تھے ۔ ان گذرے پانچ سالوں میں کسی ایک بھی رکن سے منسوب ایسا کوئی ریکارڈ یا کارنامہ نہیں کہ جس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دعویٰ کیا جاسکے کہ اس نے اپنے حلقے یا وارڈ میںجمہوری ڈھانچہ کو مستحکم ومضبوط بنانے کی سمت میں کوئی کردار اداکیا ہو۔ لوگوں کو درپیش کسی ایک بلدیاتی اشو کو سنجیدگی سے ایڈریس کرکے اس کا دائمی حل تلاش کرلیاہو۔
اس کے برعکس یہ ارکان اپنے لئے سرکاری پروٹوکول کے حصول میں اپنی ساری توانائی صرف کرتے رہے، پھر اپنے لئے سکیورٹی حصار کا حصول بھی ان کا ایک بڑا مسئلہ رہا، بہت سارے منتخبہ ارکان کے لئے سکیورٹی حصار میں رہائش اور طعام کا مسئلہ بھی درپیش رہا ، جب ان سارے معاملات سے کچھ حد تک فرصت ملی تو ایوانوں کو اپنے اپنے مفادات اور سیاسی نظریات اور سیاسی وابستگیوں کے حوالوں سے اکھاڑوں کی آماجگاہ میںتبدیل کیا جاتارہا۔ لوگوں نے اگر کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ وابستگی کی بُنیاد پر منڈیٹ تفویض کیا تو اُس منڈیٹ کو اپنی جیوتیوں کی نوک پر رکھ کر آیا رام گیا رام کی یادیں تازہ کرکے اور کوٹ تبدیل کرکے دوسری پارٹیوں کا چوغہ زیب تن کرتے رہے۔
رہی سہی کسر اعتماد اور عدم اعتماد کی تحریکیں لانے اور اندرون خانہ (ایوان) کو اپنے مخصوص مفادات کے حصول اور تکمیل کی سمت میں راہیں استوار کرنے میں صرف کرتے رہے۔ ایک دوسرے پر الزامات اور جوابی الزامات ان میں سے بعض کا روزمرہ کا معمول بن چکا ۔
اس سارے پس منظرمیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ ادارے، جو عوامی اہمیت کے حامل تصور کئے جارہے ہیں، عوام کی توقعات پر اترنے میں صریح ناکام رہے ہیں۔ اس مدت کے دوران کئی ایک ارکان کو بدعنوانیوں، غیر اخلاقی سرگرمیوں ، کورپشن یا بینکوں سے حاصل رقومات کی عدم ادائیگی یا اور کسی اشو کے تعلق سے ملوث پائے گئے جن کے خلاف معاملات زیر تفتیش ہیں یاپولیس کی تحویل میں ہیں۔ ان میں سے کچھ وہ بھی شامل ہیں جو لیفٹیننٹ گورنر اور انتظامیہ کے بعض بڑے عہدیداروں کے ساتھ ملاقاتوں کے اپنے فوٹو سیشن منعقد کرکے ان کو پبلسٹی کے سہارے عوام کومغالطوں میں مبتلا کرتے رہے۔
ان لوگوں کی ناکامی اور ان میں سے کئی ایک کی غلط کاریوں کی اصل وجہ یہ ہے کہ الیکشن کے اعلان کے وقت سیاسی سطح پر کوئی استحکام اور کوئی سیاسی توازن دستیاب نہیںتھا، حکومت اور ایڈمنسٹریشن کی یہ خواہش تھی کہ کسی نہ کسی حوالہ سے ان اداروں کا الیکشن کرواکر کریڈٹ بھی حاصل کرلیاجائے اور عوام تک یہ پیغام بھی پہنچایا جاسکے کہ جمہوریت میں راسخ یقین رکھتے ہیں۔ چنانچہ اس عجلت باالخصوص تناظرمیں ایسے لوگ بھی میدان میں کود پڑتے رہے جن کی کوئی عوامی ساکھ نہیں تھی اور نہ عام لوگوں کو ان کی مصروفیات، نظریات ،سرگرمیوں اور عہد بندی کے حوالہ سے کچھ زیادہ جانکاری حاصل تھی۔ عوامی سطح پر بھی لوگوں نے رائے دہندگی کے اپنے حق کو نامسائد سیاسی منظرنامے کے حوالہ سے زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی ، اس کی کئی مثالیں ہیں جن میں سے کچھ تو وہ ہیں کہ بعض اُمیدوار اپنے ہی گھر کے صرف ۹؍ووٹوں کی مدد سے رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔علمی قابلیت کا عالم یہ تھا کہ جب بحیثیت مشیر بصیر خان حلف برداری کی تقریب پران سے حلف لئے رہے تھے تو کئی ایک اپنے حلف نامے تک کو پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔
ایسے حالات میں ان سے کوئی توقع رکھنا عبث ہی تھا۔ بہرحال ماضی، ماضی ہی ہے اس کو دہرانا درست نہیں البتہ ماضی کی کوتائیوں، جلد بازی اور مخصوص مصلحتوں کے پیش نظر اُٹھائے اقدامات اور لئے جاتے رہے فیصلوں کی ناکامی مستقبل کے حوالہ سے درس عبرت ضرور ہیں۔ چنانچہ ان ساری ناکامیوں اور سب سے بڑھ کر پانچ سال کی طویل مدت کے اتلاف کو افسوس اور صدمے کے زمرے میں حاشیہ پر رکھ کر اب آگے حال اور مستقبل کے بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ سازی کا تقاضہ ہے۔ جو کوئی بھی ان اداروں کے انتخابات میں حصہ لینے کا خواہاں ہورائے دہندگان کی اولین ذمہ داری اور توجہ اس بات پر ہونی چاہئے کہ اُمیدوار کس قابلیت اور خصلت کاحامل ہے۔ اس کے حق میں منڈیٹ دے کر کیا وہ ان کی توقعات اور ضروریات کی کسوٹی پر پورا اُترنے کی اہلیت رکھتا ہے، وہ عوام کے درپیش معاملات اور تکالیف کا حل تلاش کرنے کی سمت میں کس حد تک عہدبند ہے، یہ سارے عنصر اگراُمیدوار میں مجتمع ہوں تو وہ آپ کے ووٹ اور منڈیٹ کا اہل اور حقدار ہے لیکن اگر سودا گرانہ اور معذرت خواہانہ ذہنیت کا ہی حامل ہے تو وہ آپ کے ووٹ کا حقدار نہیں۔