سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد نے اپنے تقریباً تین سالہ دور اقتدار میںکروڑوں روپے مالیت کی اراضی روشنی سکیم کے تحت الاٹ کیں، اُس وقت کی حکومت کے اس اقدام کے طفیل کون لوگ مستفید ہوئے اس بارے میں متضاد دعویٰ اب تک سامنے آچکے ہیں ۔ جو لوگ مستفید ہوئے وہ دعویٰ کرتے رہے کہ چونکہ زمین ان کی تحویل میں تھی لہٰذا حکومت کی جانب سے مقرر معاوضہ کے مطابق ادائیگی کرکے اُس زمین پر ملکیتی حقوق حاصل کرلئے لیکن کچھ حلقے اس الاٹمنٹ کو جموں وکشمیرکی تاریخ کا ایک بہت بڑا سیاسی اور منظور نظری سے عبارت ملٹی کروڑ سکینڈل قرار دیتے رہے۔ یہ بھی دعویٰ کیا جاتارہا کہ سالہاسال قبل غالباً مرحوم شیخ محمدعبداللہ کی زیر قیادت حکومت نے جب اس سکیم پر غور کرنا شروع کیا تو یہ توقع کی گئی کہ عمل آوری کی صورت میں جو رقم وصول ہوگی اُس کو دوسری سکیموں ؍پروجیکٹوں کی عمل آوری پر صرف کرکے کئی ایک شعبوں میںخود کفالت حاصل کرلی جائیگی لیکن جب آزاد کی قیادت میں حکومت نے عملی جامہ پہنانے کا عمل شروع کیا تو محض چند کروڑ روپے ہی وصول ہوسکے۔ چنانچہ اس حوالہ سے بھی معاملہ اختلافی رہا جبکہ عوامی سطح پر ہر دورمیں زیر بحث رہا۔
حکومت کا دعویٰ یہی رہا کہ اراضیاںمستحق افرادکے حق میں الاٹ کی گئی اور اس میں کسی سیاسی مصلحت یا منظور نظری کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ لیکن یہ سارے دعویٰ اور جوابی دعویٰ جن میں کچھ کی حیثیت الزامات اور جوابی الزامات کی تھی اُس وقت زمین بوس کردیئے گئے جب ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد لیفٹیننٹ گورنر کی قیادت میں موجودہ جموں وکشمیر ایڈمنسٹریشن نے سکیم کو کالعدم قراردیا اور الاٹیوں سے کہا گیا کہ وہ اراضیوں کو سرنڈر کریں۔کچھ لوگوں نے عدالتوں سے رجوع کیا لیکن فی الوقت تک معاملہ ہوا میں ہی لٹکا ہوا ہے۔
ایک مرحلہ پر یہ پروپیگنڈہ بھی کیاگیا کہ اس سکیم کے تحت سب سے زیادہ کشمیر مستفید ہوا لیکن جب جموں کے ایک سرکردہ وکیل نے ریونیو ریکارڈ اور مستند دستاویز ات کی روشنی میں حقائق سامنے لائے تو یہ بات واضح ہوگئی کہ جموں خطہ اس سکیم کے تحت زیادہ مستفید ہوا ۔ البتہ یہ درست ہے کہ سکیم کے تحت مستفید ہونے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد سیاسی ورکروں اور سیاستدانوں کی تھی ۔جن کے حق میں کروڑوں مالیت کی اراضیاں اونے پونے داموں میں فروخت کی گئی۔
قطع نظر اس کے اب آزاد صاحب اس نعرہ کے ساتھ میدان میںآرہے ہیں کہ اگر انہیں آنے والے الیکشن میں عوام کا اعتمادملا اور حکومت تشکیل پائی تو وہ روشنی سکیم کو پھر سے بحال کریں گے۔ جموں وکشمیر ہائی کورٹ اس مخصوص سکیم کو ۲۰۲۰ء میں غیر آئینی قراردے چکی ہے۔ ۸۵۲۳ ۶؍ کنال اراضی پر مشتمل اس سکیم کے تحت حکومت کو کتنی آمدن حاصل ہوئی تھی اس بارے میں بھی متضاد معاملات سامنے آتے رہے ہیں بہرحال زمینی حقیقت یہ بھی ہے کہ ایڈمنسٹریشن سے وابستہ اُس دور کے اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات نے بھی ڈبکیاں لگائی اور اپنے حقیر مفادا ت کے حصول کو یقینی بناتے رہے یا دوسرے الفاظ میں اپنا حصہ وصول کرتے رہے ۔
اس تعلق سے شہر کے ایک سرکردہ بزنس مین کے حق میں بھی شہر سرینگر کے وسط میں اراضی کا ایک ٹکڑا الاٹ ہوا، لینڈ ایکٹ یا مروجہ قوانین کی روشنی میں زمین کی قیمت ۳؍کروڑ تقریباً۲۰؍لاکھ مقرر ہوئی لیکن اسی دوران روشنی سکیم کا ڈنکا بجایا گیا، اس شخص کی زمین کی الاٹمنٹ کو روشنی سکیم کے دائرے میں لایاگیا اور سرنو زمین کی قیمت اس ایکٹ کی روشنی میں گھٹاکر صرف ایک کروڑ کچھ لاکھ روپے کے آس پاس مقرر کی گئی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ بزنس مین ہر دورمیں برسراقتدار جماعتوں یا حکومتوں کا چشم چراغ رہا ہے اور کسی نہ کسی حوالہ سے ہردورمیں حکومت سے مراعات حاصل کرتاآرہا ہے۔ روشنی سکیم کے تحت ایسے بہت سارے لوگوں کو ہر ممکن طریقے سے فائدہ پہنچایا گیا۔
اب جبکہ آزاد صاحب اعلان کررہے ہیں کہ اقتدارمیں آنے کی صورت میں وہ اس مخصوص سکیم کو پھر سے بحال کریں گے تو سوال یہ ہے کہ جموں وکشمیرکے اوسط شہری کو اس سکیم کی بحالی سے کس نوعیت کا فائدہ حاصل ہوگا جبکہ پہلے مرحلہ میں بھی اوسط شہری کو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ فائدہ اگر کسی کو ہوا تو ان کا تعلق کسی نہ کسی حوالہ سے سیاسی اداروں یا سیاست سے رہا ہے۔
آزاد صاحب کبھی خطہ چناب کے معاملات بشمول اُس خطے کی ترقیات کے ساتھ خود کو مخصوص طور سے وابستہ کررہے ہیں تو اب روشنی سکیم کے احیاء کو اپنا چنائو منشور بنارہے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں آزاد صاحب خود کو اور اپنے سیاسی دائرہ کا ر اور اہداف کو کچھ حلقوں یا کچھ مخصوص معاملات تک محدود کررہے ہیں جبکہ جموں وکشمیر چناب خطے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک وسیع ریاست کا نام ہے جو مختلف خطوں پر مشتمل ہے۔ کوئی سیاستدان چاہے وہ کتنا ہی سیاسی قد رکھتا ہے خود کو مخصوص خطے یا لسانیات، طبقات ، علاقائیت اور محدود نظریات تک محدود رکھے تو اس کوکامیاب سیاستدان نہیں شمار کیاجاسکتا ہے بلکہ اس کی حیثیت علاقائی اور طبقاتی رہ جاتی ہے۔
قطع نظر اس کے بھی کہ آزاد صاحب کو ان کے سیاسی حریف حکمران جماعت بی جے پی کا شکمی شریک یا اے ، بی ، سی ٹیم کا درجہ دے رہے ہیں حقیقت یہ بھی ہے کہ جموں وکشمیر کے ہر خطے میںآزاد صاحب متعارف ہیں اور کئی ایک عوامی حلقوں کی نگاہیں اور توجہ ان کی طرف مرتکز ہیں ۔ علاقائی سیاست میں آکر یہ توقع کی جارہی تھی کہ آزاد ایک اور متبادل کے طور پر وقت گذرتے اُبھریں گے لیکن اپنی سرپرستی میں قائم علیحدہ پارٹی کی تشکیل کے محض ایک سال کے اندر اندر وہ اپنے بیانات، تبصروں اور اختیار کردہ موقفوں کے حوالوں سے اب چناب خطے کی حدود تک محدود ہوتے نظرآرہے ہیں جبکہ روشنی سکیم کی بحالی کا وعدہ کرکے خود کو اور بھی محدود کررہے ہیں ۔
البتہ یہ ممکن ہے کہ ان کا اپنا نظریہ اور اپروچ کچھ اور ہو اور اُس تک ہماری نظرنہ پہنچ پارہی ہو، لیکن بادی النظرمیں وہی بات زبان پر لائی جاسکتی ہے جو نظرآرہی ہو یا محسوس کی جارہی ہو بہرحال ابھی الیکشن کے انعقاد سے متعلق کچھ بھی وثوقت سے کہا نہیں جاسکتا ہے، کب ہوں گے، اس سال ہوں گے، اگلے سال ہوں گے یا ہونگے ہی نہیں ، ابہام درابہام موجود ہے۔ لیکن انتخابات میںاپنی پارٹی اورمتوقع اُمیدواروں کی شرکت کی ضمن میں آزاد ایسے سیاستدانوں سے یہی اُمید رکھی جاسکتی ہے اور مشورہ بھی دیاجاسکتا ہے کہ وہ اپنا سیاسی کنواس ذرا وسیع کریں اوراُس کنواس میں آبادی کے ہرخطے سے وابستہ لوگوں کی عملی شرکت اور تعاون کو یقینی بنانے کی کوشش کریں۔