منگل, مئی 13, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

طبقاتی نظریات پر مبنی الیکٹورل نظام 

اس کے سنگین مضمرات ہیں، سیاست دان ہوش کے ناخن لیں

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2023-10-05
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

۱۹۴۷ء میں برصغیر ہندوستان مذہبی، اور نظریاتی بنیادوں پر تقسیم ہوا ۔ ۴ا؍اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کا جنم ہوا اور اگلے دن ۱۵؍ اگست کو ہندوستان بنا۔ چند سال بعد  ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے بھی لسانی اور نظریاتی بنیادوںپر دو ٹکڑے ہوئے اور یوں پاکستان کے بطن سے بنگلہ دیش کی پیدائش ہوئی۔ اس تقسیم در تقسیم کو آج بھی کچھ سیاسی ، نیم سیاسی اور طبقاتی نظریات کے حامل لوگ مختلف نظریوں سے دیکھ رہے ہیں، کوئی اس تقسیم کو غلط  قرار دے رہا ہے ، کوئی اس تقسیم کے حوالہ سے کھینچی لکیروں کو مٹا کر واپس متحد ہندوستان کی تشکیل چاہتا ہے  تو کچھ ہندوستان اور پاکستان کے علاقائی رہائشی اپنے لئے الگ الگ صوبے اور آزاد مملکت کے حصول کی تحریکیں چلا رہے ہیں ۔
قطع نظر اس کے کہ اس ساری تقسیم در تقسیم کا ذمہ دار اور محرک کون ہے اور کس نے پہلے تقسیم کے زہریلے بیچ بوئے آج کی تاریخ میں لوگوں کو اب کسی اور نظریاتی اور طبقاتی  الجھنوں میں مبتلا کرکے زمین کی تقسیم کی بنیاد پر نہیں بلکہ فرقہ واریت، زمروں کے خطوط پر اور ریزرویشن کے نام پر مگر ساتھ ساتھ لسانی اور مذھبیات کے ساتھ خلط ملط کرکے لوگوں کی تقسیم کو یقینی بنانے کیلئے کام کیا جارہا ہے ۔ ان سبھی نظریات اور عقائد کو لے کر سیاست بھی کی جارہی ہے ۔
الیکشن چاہے ریاستی اسمبلیوں کے ہوں ، پارلیمان کے ہوں، پنچایتی اداروں کے لئے ہوں  کیلئے ذات پات، رنگ و نسل ، زبان، مذہب، بیک ورڈ، فارورڈ، مسلم ، دلت مسلم، دلت ہندو، سکھ جین، بودھ کے حوالو ں سے حلقوں کے لئے امیدواروں کی نامزدگی کیلئے کھنگالا جاتا ہے تو پھر کہیں جب ان بنیادوں کو لے کر  اختراعی اور سیاسی مصلحتوں کے تعلق سے مقرر کردہ معیارات اور پیمانے برابر لگ رہے ہیں تو منڈیٹوں کی تقسیم کا کام ہاتھ میں لیا جارہا ہے ۔
یہ منظر نامہ آج کا نہیں بلکہ ملک کی آزادی سے لے کر برابر آج تک کی تاریخ تک اسی پیمانے اور معیار کے مطابق الیکٹورل پالیسیوں کو مد نظر رکھ کر ان کا سہارا لیا جارہا ہے ۔ تاہم ابھی ہندوستان کا الیکٹورل منظر نامہ اس لعنت سے پاک ہے جس کو اختیار کرکے عملی جامہ پہنائے جانے کا مطالبہ کچھ حلقوں کی جانب سے کیا جارہاہے ۔ ذات پات، فرقہ اور رنگ کی بنیاد پر منڈیٹ کی تقسیم اور تفویض کی حدود و قیود سے باہر آکر ان سبھی نظریاتی بنیادوں پر الگ الگ الیکٹورل سسٹم یا ریزرویشن اور نامزدگی کا زیادہ مطالبہ ابھی ملکی سطحی پر سامنے نہیں آیا ہے لیکن جموںوکشمیر میں کچھ حلقے اس علیحدہ الیکٹورل سسٹم کو رائج کرکے عملہ جامہ پہنانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
اس حوالہ سے ۱۹۴۷ء اور ما بعددوسرے پیش آمدہ واقعات سے متاثرین ، جن کی اُن ایام میں تعداد مٹھی بھر تھی اور اب گذرے کچھ دہائیوں کے دوران ان کی آبادی میں اضافہ ہوکر لاکھوں میں ہو گئی ہے ۔ یہ مطالبہ لے کر سڑکوں پر آرہے ہیں کہ ان کے حق میںپاکستان کے زیر کنٹرول کشمیر کے لئے مختص نشستوں میں سے کم سے کم آٹھ(۸) انتخابی حلقے مخصوص کر دیئے جائیں ۔ اسی طرح جموںوکشمیر کی سکھ برادری بھی اپنے لئے یہ مطالبہ لے کر میدان میں ہے کہ سکھوں کیلئے کشمیر سے ۲ اور جموں سے ۲ حلقوں کو ان کے لئے مخصوص رکھا جائے ۔ جبکہ کشمیری پنڈت اپنے لئے فی الوقت تک دو نامزدگیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جموںکی عیسائی آبادی بھی اپنے لئے ایک حلقہ مخصوص رکھنے کی مانگ کررہے ہیں ۔
۹۰ حلقوں میں سے ۱۴؍ حلقوں کو مخصوص کرنے کے بعد باقی صرف ۷۶ حلقے راست مقابلہ آرائی کے لئے رہ جاتے ہیں۔ الیکٹورل منظر نامہ کے نام پر ان مطالبات کو مضحکہ خیز ہی نہیں بلکہ سماجی تقسیم کے عزائم اور مذموم طبقاتی مقاصد کی تکمیل کی سمت میں شرمناک انداز فکر تصور کیا جارہا ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان مطالبات کو پیش کرنے  والوں کے پیچھے اصل میں شہہ دینے والے کوئی اور ہی ہیں، جو جمہوریت پر دل سے یقین تو نہیں رکھتے البتہ لوگوں کی تنقید سے خود کو محفوظ رکھنے کیلئے جمہوریت کی راگ ضرور الاپتے رہتے ہیں ۔ اس الیکٹورل سسٹم کو کسی بھی حوالہ سے پروان چڑھایا گیا تو یہ طریقہ کار آہستہ آہستہ تناور درخت کی طرح اپنی جڑوں کو مضبوط بناکر بالآخر ملک کی مجموعی سالمیت ، جغرافیائی وحدت، فرقہ وارانہ یکجہتی کے لئے سم قاتل ثابت ہو سکتا ہے ۔
ملک کی موجودہ سیاسی قیادت کو اگر ابھی اپنی ان حماقتوں اور منفیات اور طبقاتی خطوط پر الیکٹورل سسٹم کو پروان چڑھانے یا حوصلہ افزائی کرنے کی اپنی سوچ کے مستقبل کے حوالہ سے مضمرات کا فہم و ادراک نہیں تو ان کے لئے یہی مخلصانہ مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور خود کو آنے والے دنوں میں ملک کی تقسیم در تقسیم کی ایک اور بنیاد رکھنے یا اس حوالہ سے مخصوص ذہنوں کی حوصلہ افزائی کرنے سے اپنے ہاتھ کھینچ لیں۔
جموںوکشمیر میں جو مخصوص طبقے اس نوعیت کے مطالبات لے کر اب بتدریج نمودار ہور ہے ہیں اُن کے ان مطالبات کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ان کے یہ مطالبات یا کہانی اونٹ اور خیمہ زن کی کہانی سے مشابہت رکھتی ہے ۔ ان میں سے کچھ لوگوں کیلئے کیا یہی کافی نہیں تھا کہ وہ جموںوکشمیر میں رہائش پذیر ہوئے اور بتدریج تمام حقوق کے اہل بھی قرار پائے ، نہ حقدار ہوتے ہوئے بھی جموںوکشمیر کے رہائشی بن گئے، لیکن اب ایک نئے روپ میں جلوہ گر ہو رہے ہیں جس کی اگر کسی وقتی سیاسی یا انتظامی مصلحت کے پیش نظر حوصلہ افزائی کی جاتی رہی تو آنے و الے کل یہ ایک نئی علاقائی عفریت کا روپ بھی دھارن کرسکتی ہے جو بالآخر جموںوکشمیر کی ایک اور علاقائی تقسیم کی بنیاد بن سکتا ہے ۔
مشترکہ الیکٹورل کا موجودہ نظام بہتر قابل عمل اور قابل گوارا ہے۔ امیدوار چاہے کسی بھی مذہبی، سیاسی یا طبقاتی یا فرقہ سے وابستگی رکھتا ہو اس مشترکہ الیکٹورل نظام کے تحت انتخابی میدان میں خود کوقسمت آزمائی کرسکتا ہے پھر یہ لوگوں کی پسند بالخصوص میدان میں اترے امیدواروں کی اہلیت، صلاحیت اور کریڈبلٹی پر منحصر ہے کہ وہ کس کو اپنی نمائندگی کا اہل سمجھ کر اس کے ہاتھ میں اپنا منڈیٹ تفویض کرے۔
عالمی سطح پر جب مختلف ممالک میں موجودہ اور رائج الوقت الیکٹورل پروسیس پر نگاہ پڑ جاتی ہے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان ممالک میں کوئی علیحدہ الیکٹورل نظام رائج نہیں ۔ ہندوستان سے وابستہ لاکھوں ہندو برطانیہ ، کنیڈا، پورپی ممالک ، ا مریکہ اور پھر خلیجی ریاستوں میں رہائش پذیر ہیں جبکہ اسی طرح ان سبھی ممالک میںپاکستانی مسلمان اور بنگلہ دیشی باشندے بھی لاکھوں کی تعداد میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ سارے ان ممالک میں ملکی سطح کے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں، کوئی کامیابی حاصل کرکے ممبر پارلیمنٹ بھی بن جاتا ہے اور وزیراعظم کا عہدہ بھی پاتا ہے ۔ جیساکہ برطانیہ کے موجودہ وزیراعظم کی مثال سامنے ہے ۔ ان ممالک میںرہائش پذیر لاکھوں تاریک وطن باشندوں نے اپنے لئے نہ علیحدہ ووٹر فہرستوں یا حلقوں کا مطالبہ کیا ہے اور نہ ہی ریزرویشن کا مطالبہ کیا ہے ۔
عالمی سطح کی اس واضح اور دوٹوک الیکٹورل طرز نظام کو دیکھنے کے باوجود ملک میں طبقاتی اور فرقہ واریت پر مبنی الیکٹورل نظام کو متعارف کرانے کی مانگ کو لے کر کچھ بڑی سیاسی پارٹیاںاپنی شکمی شریک پارٹیوںجنہیں عام اصطلاح میں فرنج پارٹیاں کہا جاتا ہے کو میدان میں اتارنے کی درپردہ سرپرستی کررہی ہیں، یہ ناقابل فہم ہے ۔
ShareTweetSendShareSend
Previous Post

ہمارے علماء …!

Next Post

ون ڈے رینکنگ میں بابراعظم بدستور پہلے نمبر پر براجمان

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
بابر اعظم کے ون ڈے کرکٹ میں۴ ہزار رنز مکمل

ون ڈے رینکنگ میں بابراعظم بدستور پہلے نمبر پر براجمان

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.