منگل, مئی 13, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

میوہ صنعت ، سیاستدانوں کا وائویلا

ریکارڈ پیداوار کے باوجود سینہ کوبی کیوں؟

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2023-10-04
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

کیا واقعی کشمیرکی میوہ صنعت کومالی مشکلات کا سامنا ہے ، کیونکہ اس نوعیت کے دعویٰ کشمیرنشین کچھ روایتی سیاستدان آئے روز کرتے رہتے ہیں۔ ان سیاستدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت ہند اور جموں وکشمیر کی یوٹی سرکارکشمیر کی میوہ صنعت اور اس سے وابستہ لاکھوں افراد کی روزی روٹی کے تئیں بے اعتنائی برت رہی ہے، میوہ صنعت سے وابستہ باغ مالکان کو کوئی مالی امداد نہیں دی جارہی ہے جو بقول ان کے کووڈ۱۹ اور دیگر سماوی آفات کے نتیجہ میں مالی اور پیداواری بحرانوں سے جھوج رہے ہیں، اور مانگ کی جارہی ہے کہ ملک کے دیگر خطوں کے باغ مالکان کو دی جارہی امداد اور راحتی اقدامات کے طرز پر کشمیر کے میوہ صنعت سے وابستہ لوگوں کے حق میں کسان کا رڈ سکیم اور دیگر حاصل قرضہ جات کی معافی کے لئے مناسب اقدامات اُٹھائے جائیں۔
حکومت پیداوار اور اقتصادی شعبوں کے تعلق سے وابستہ افراد اور اداروں کو امداد فراہم کرنا چاہئے گی یہ زمینی حقائق کی روشنی میں اس کی صوابدید پر منحصر ہے یا کوئی سیاستدان یا سیاسی پارٹی اپنے مخصوص مفادات یاووٹ بینک کے حوالہ سے صنعت سے وابستہ افراد کے حق میں امداد کی فراہمی کیلئے حکومت سے مطالبہ کرے اس پر بھی اعتراض نہیں البتہ زمینی سطح جو کچھ نظرآرہا ہے اس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ کشکول ہاتھ میںلے کر دروازوں پر دستک کی خوگریت کچھ اچھی نہیں لگتی۔ ہر مانگ کے حوالہ سے کچھ حدود ہوتے ہیں اور کچھ اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ لیکن ان حدود اور تقاضوں کو محض چند مفادات کی خاطر حاشیہ پر رکھنے یا دانستہ یا غیر دانستہ طور نظرانداز کرنے کی روش اخلاقی اعتبار سے بھی کچھ سوالوں کو جنم دیتی ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ گذشتہ سال میوہ سیزن کے دوران میوہ کی بیرونی منڈیوں تک رسائی کو کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ قومی شاہراہ پر تعینات ٹریفک اور دوسرے ذمہ داروں نے اپنی ہوس گیری اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنی بالادستی اور دبدبہ کا بھونڈا مظاہرہ کرکے میوہ سے لدے ٹرکوں کو کئی کئی روز تک شاہراہ کے مختلف پڑائوں میں درماندہ رکھا جس کے نتیجہ میں لاکھوں روپے مالیت کا میوہ راستے میں سڑگیا، میوہ صنعت سے وابستہ مالکان کو اس عمل کے نتیجہ میں نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود میوہ ملک کی منڈیوں تک پہنچتا رہا، البتہ جن میوہ بیوپاریوں کے نام یہ میوہ روانہ کیاجاتا رہا اُس حوالہ سے ان بیوپاریوں اور باغ مالکان کے درمیان پہلے سے معاملات طے ہوتے ہیں جن میں قیمتوں کا تعین بھی خاص طور سے قابل ذکر ہے۔
گذشتہ سال کے اس مخصوص صورتحال کے پیش نظر اب کی بار ایڈمنسٹریشن کی جانب سے میوہ کی تیز رفتار ڈھلائی کویقینی بنانے کیلئے واضح ہدایات جاری کئے جاچکے ہیں اور متعلقہ اداروں سے کہاگیا ہے کہ وہ میوہ سے لدے ٹرکوں کی فاسٹ ٹریک پر نقل وحرکت کو یقینی بنانے کیلئے ایک قابل عمل روڑمیپ اختیار کرکے اس کو عملی جامہ پہنائیں۔ اس تعلق سے خود چیف سیکریٹری نے اعلیٰ سطح کی میٹنگ طلب کی تھی جس میں سارے امورات کا تفصیلی اورگہرائی سے جائزہ لینے پر روڑ میپ مرتب کیاگیا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ گذشتہ میوہ سیزن کے دوران میوہ کی ریکارڈ پیداوار ہوئی جو ۲۱؍لاکھ ۲۳؍ ہزار میٹرک ٹن تھی جبکہ اس سے ایک سال قبل میوہ کی پیداوار ۱۹؍ لاکھ ۸۲؍ ہزار میٹرک ٹن کے قریب تھی۔ اسی طرح خشک میوہ کی بھی ریکارڈ پیداوار ہوئی جو گذشتہ سال میوہ سیزن کے دوران ۲؍لاکھ ۶۱؍ ہزار میٹرک ٹن تھی ۔ جبکہ اس سے ایک سال قبل خشک میوہ کی پیداوار ایک لاکھ ۹۳؍ہزار میٹرک ٹن تھی۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ گذشتہ سال یکم ستمبر سے ۲۵؍ ستمبرکے درمیان دستیاب ریکارڈ کے مطابق۲۹؍ ہزار میوہ ٹرک سرینگر سے جموں کی طرف روانہ ہوئے تھے۔
ایک اور پہلو بھی قابل توجہ ہے ۔ وہ باغ مالکان جنہوںنے روایتی درختوں کی جگہ زیادہ پھل دینے والے باغات کی تعمیر کا آپشن اختیار کیا کا کہنا ہے کہ ان کی پیداواری صلاحیت میں کئی گنااضافہ ہوا ہے جس کے طفیل ان کی آمدن میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ ظاہر ہے اگر وہ مالی نقصانات سے جھوج رہے ہوتے تو ضرور آوازبلند کرتے لیکن برعکس اس کے وہ مطمئن ہیں شاکی نہیں ۔
یہ کسی حد تک درست ہے کہ کچھ باغ مالکان کو مشکلات اور مالی خساروں کا سامنا ہو لیکن بحیثیت مجموعی ساری فروٹ انڈسٹری کو خسارے کی عینک سے دیکھنے اور پھر حکومت سے مالی امداد کا مطالبہ کسی بھی اعتبار سے درست نہیں لگتا۔ مطالبہ کرنے والے بغیر کسی اگر اور مگر کے ایسے ہی نقصانات سے دو چار باغ مالکان کیلئے راحتی سکیم اور مالی امداد کا مطالبہ کریں تو اس کیلئے جواز بنتا ہے۔
خود کشمیر کے بازاروں کاحال یہ ہے کہ اب تک جومیوہ بازاروں میں پہنچ چکا ہے وہ حد سے زیادہ قیمتوں پرفروخت کیاجارہا ہے ۔ کوئی بھی میوہ قسم ڈیڑھ سو اور اڑھائی سو فی کلو کے درمیان لیکن اس سے کم فروخت نہیں کیا جارہاہے۔ یہاں تک کہ حکومت سے یہ مطالبہ کیاجارہا ہے کہ وہ مارکیٹ انٹروینشن سکیم کے تحت میوہ کی خریداری کو یقینی بنائے جس کیلئے ماضی قریب میں تین روپے فی کلو ریٹ مقرر کی گئی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اسی سکیم کے تحت ہماچل پردیش میں دس روپے فی کلو حساب سے خریداری کی جارہی ہے۔ تعجب تویہ ہے کہ یہی فروٹ جسے عام اصطلاح میں کلٹ فروٹ کہاجارہاہے کشمیرکے بازاروں میں فی الوقت ۳۵؍ روپے فی کلو کے حساب سے ریڈوں پرفروخت ہورہاہے۔
کچھ ایک مخصوص اور روایتی سیاستدانوں کے وائویلا اور سینہ کوبی کا کوئی صحت مند اور قابل قبول جواز نہیں کیونکہ خود باغ مالکان کا یہ اعتراف ریکارڈ پر آرہا ہے کہ اس سال گذشتہ سال کے برعکس پیداوار میں زبردست اضافہ ہوا اور ان کی آمدن بھی دوہری ہوئی۔ بیرون ریاست منڈیوں کے بیوپاری اور سٹاکسٹ بھی دھڑا دھڑ ، میوہ کی معقول قیمتوں پر خریداری کررہے ہیں۔ اگر زمینی سطح پر صورتحال یہ ہے کہ تو سوال یہ ہے کہ وائویلا اور سینہ کوبی کرنے کے عادی سیاستدان کو کس زبان میں جواب دیاجاسکتا ہے؟وہ اپنی سیاسی ہانڈیوں کو جلا بخشنے کیلئے کیوں جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں اور ایسے بیانات دے رہے ہیں کہ ان بیانات کا مطالعہ کرتے وقت محسو س ہوتا ہے کہ ابھی سینہ پھٹ پڑے گا۔
اسی نوعیت کی جذباتی بیان بازی کشمیرنشین کم وبیش ہرسیاسی کارکن کا خاصہ رہا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نوعیت کے بیانات کے سہارے نہ صرف لوگوں کے جذبات کے ساتھ مجرمانہ کھلواڑ کیاجاتا رہا ہے بلکہ گمراہ کن پروپیگنڈہ کرکے اسے ایک آلہ کے طور بھی مکروہ سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے بروئے کار لایاجاتارہا ہے۔ کشمیرکی میوہ صنعت کشمیر کی اقتصادیات میںریڑھ کی ہڈی بھی اور شہ رگ کی حیثیت بھی رکھتی ہے جبکہ یہ متوازی اقتصادیات کا کردار بھی اداکرتی ہے۔ اس صنعت کی مزید نشو ونما ، ترقی اور پیداوار کے ساتھ ساتھ آمدن میں اضافہ کی سمت میں بہت سارے اقدامات اُٹھائے جانے کی ضرورت ہے لیکن ان اقدامات کی طرف نہ باغ مالکان اور نہ ہی دوسرے متعلقہ اداروں کی طرف سے کسی سنجیدگی کا مظاہرہ کیاجارہاہے۔

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

جموں میں اجلاس:یہ دوغلا پن ہے

Next Post

بابراعظم ورلڈکپ میں 3 یا 4 سنچریاں بنائے گا، سابق بھارتی کرکٹر کی پیشگوئی

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
آر پی ایس جی گروپ نے گمبھیر کوعالمی مینٹور مقرر کیا

بابراعظم ورلڈکپ میں 3 یا 4 سنچریاں بنائے گا، سابق بھارتی کرکٹر کی پیشگوئی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.