اہل کشمیر کو کب اور کس نے سبز باغ نہیں دکھائے۔ عزت وآبرو کا مقام، اپنے گھرمیں روز گار کی یقین دہانی، تعمیر وترقی ، جمہوری، تہذیبی ، تمدنی، لسانی ،سیاسی اور آئینی حقوق کی عمل آوری اور زندگی کے ہر شعبے کے تعلق سے یکساں مواقع فراہم کرنے کے اعلانات بطور پارٹی اور چنائو منشورات کے کس سیاسی پارٹی اور ان سیاسی پارٹیوں سے وابستہ کس لیڈر نے نہیں کئے، مگر جب عمل آوری کی گھڑی آئی اور لوگوں کو ان کی ضرورت محسوس ہوئی یہ کہیں زمین پردکھائی نہیں دیئے۔
کب اورکس وقت لوگوںنے اپنے طور سے اپنی راہنمائی کا راستہ اختیار کرکے درپیش مشکلات اور معاملات کا سامنا نہیں کیا اور جب حالات کو قدرے واپس معمول پر آتے پایا تو گرگٹ کے موافق کردار ادا کرتے ہوئے پھر نمودار ہوئے اور مگر مچھ کے چند ایک آنسو بہاکر عوام کی صف میں خود کو کھڑا رکھ کر حُسن غمخوار ی کا لبادہ اوڑھ لیا۔
آج کی تاریخ میں بھی یہی کچھ ہورہاہے اور نہ صرف ہورہاہے بلکہ اسی انداز فکر اور طرزعمل کا مظاہرہ چشم بینا دیکھ رہی ہے ۔ کم وبیش ہر سیاسی لیڈر مسلسل یہ دعویٰ کررہا ہے کہ عوام کا منڈیٹ اس کے حق میں ملتے ہی وہ سب کچھ کردکھا ئے گاجس کی لوگ خواہش رکھتے ہیں۔ روزگار فراہم کیاجائے گا ، جو لوگ حصول روزگار کی غرض سے یہاں سے چلے گئے ہیں ان کی واپسی کو یقینی بناکر انہیں اپنے گھر کے قریب روز گار کی فراہمی کو یقینی بنایاجائے گا، ہم لوگوں کو نہ سبز باغ دکھانے کے قائل ہیں اور نہ جھوٹے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں بلکہ جو کچھ بھی زمینی حقیقت ہے اُسی کے مطابق عمل کرکے لوگوں کی خواہشات کی تکمیل کو اپنا فرض سمجھ کر اداکریں گے۔
نہیں معلوم اوسط شہری کو ان سیاسی لیڈروں کی اس طرح کی یقین دہانیوں ، وعدوں اور اعلانات پرکس قدر بھروسہ ہے البتہ ذمہ دار اور حساس شہری سیاستدانوں کے ان اختراعی چونچلوںکو اچھی طرح سے سمجھ رہے ہیں اور ان کی اس ڈرامہ بازی کے پس پردہ عوامل اور ان کے عزائم کا بخوبی ادراک بھی رکھتے ہیں۔ البتہ کچھ ایک بُنیادی کمزوریاں اور مجبوریاں آڑے آرہی ہیں جن کے پیش نظر لوگ ان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس تلخ حقیقت کے باوجود اور عمومی جانکاری کے ہوتے ہوئے کہ ان میں سے بہت ساروں کا ماضی قریب کورپٹ ،بدعنوان ، جذبات کا استحصال اور دھوکہ دہی اور وعدہ شکنیوں سے ہی عبارت رہاہے۔
زمانہ قریب میں لوگوں کے لئے کچھ حساس نوعیت کے سیاسی نعرے جذباتی اہمیت کے حامل تھے اور جو سیاستدان اُن نعروں کا علمبردار رہا لوگ آنکھیں بند کرکے اور بغیر سوال کے لبیک کہتے ان کے پیچھے چلتے رہے، اب حالا ت بدل چکے ہیں، سوشل میڈیا ، انٹرنیٹ، ذرائع ابلاغ کی بڑھتی پہنچ اور عوام اور عوام کے درمیان رابطوں اور نریٹوز نے نہ صرف لوگوں کی سوچوں کی دارھائوں کو ایک نئی سمت عطاکی ہے بلکہ حالات واقعات جو پردوں کی اوٹ میں رہا کرتے تھے اور ان پر دوں کے ہوتے سب کچھ سنہرے خواب جنت بے نظیر اور مادی خوشحالی کے حوالہ سے دلفریب اور ہاتھ ملانے کی تحریک وترغیب کا موجب بنتے محسوس ہورہے تھے پردوں کے ہٹ جانے اور نظرکافی اندر تک بلکہ گہرائی تک جانے کے نتیجہ میں اب کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہا۔
لوگوں کو اب احساس ہونے لگا ہے کہ خوش نما نعروں اور وعدوں کے ہمالیہ کھڑا کرنے کی اصل حقیقت کچھ اور تھی۔ مثلاً سیلف رول اور اندرونی خودمختاری کے نعرے وقت نے ڈھونگ اور فریب ثابت کردیئے، مشن اور وژن کی حقیقتیں وقت نے بھی بے نقاب کردی۔ اندرونی خودمختاری کی بحالی کا نعرہ بھی دینے والوں کی معذرت خواہانہ روش، اختیارات سے دستبرداری اور اہم اور حساس معاملات کے تعلق سے اختیارات کی منتقلی اور زندگی ،انتظامیہ اور عوامی مفادات کے حامل اہم معاملات کے تعلق سے مفاہمت ناموں پر دستخط اور پھر ان کی روشنی میں ان پر عمل درآمد سے تعلق اندرونی معاملات اندر کی حد تک اب راز نہیںر ہے۔
کچھ لوگوں کی عسکری تحریک میںعملاً اور خدانی شرکت اور سرپرستی کے بعد نیا سیاسی کوٹ زیب تن کرنے والوں کی کروٹ اور پھر بحیثیت حکمران منظور نظر افراد کی تقرریوں کے لئے قوانین کو بالائے طاق رکھنے اور اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ کیلئے سب کچھ کرسکنے کا راستہ اختیار کیا۔ ایک اور کاروباری جو اپنے کاروباری اور تجارتی مفادات کی بھر پور تکمیل کے بعد سیاست میں آیا توآتے ہی خود کو غلام محمد بخشی کا دوسرا روپ قراردیا۔ کبھی ۳۷۰؍ کے خاتمہ کا خیر مقدم تو کبھی اس کی بحالی کی سمت میں جدوجہد کے اعلانات، کشمیرکی سیاسی اُفق پر جلوہ گر دوسرے سیاستدانوں کو وعدہ شکن اور جذباتی نعروں کی آڑمیں لوگوںکے جذبات کا استحصال کرنے کے طعنے ، الغرض لوگوں کو جن سنگین مضمرات کے حامل معاملات اور مسائل کا سامنا ہے ان کے بارے میں ذومعنی اعلانات اور باتیں چھپی تو نہیں رہتی البتہ سماج کے کچھ طبقے ایسے بھی ہیں جنہیں سیاسی موشگافیوں اور پیچیدہ نوعیت کے معاملات کا زیادہ فہم نہیں، ایسے طبقے ان نعروں اور اعلانات کی آڑمیں گمراہ ضرور ہوجاتے ہیں بلکہ اندھ بھگت کا روپ بھی دھارن کرلیتے ہیں۔
کلام مختصر، اگر کشمیرنشین سارے سیاستدان اور ساری سیاسی پارٹیاں مسلسل دعویٰ کررہی ہیں کہ وہ عوام کی فلاح وبہبود،ان کی اقتصادی اور سماجی ترقی، ترسیل انصاف کی یقینی، ترقیاتی عمل میںیکساں حصہ داری، مقامی سطح پر روزگار کی فراہمی، زمین ، تہذیب ، لسانیات اور تمدن کا تحفظ ان کا نصب العین ہے تو سارے مل کر ایک نریٹو کیوں اختیار نہیں کرتے؟ کیوں بانت بانت کی بولیاں بول کر مسجد ضرار کی طرز پر اپنی اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد کی تعمیر میں اپنے وسائل اور توانائی جھونک رہے ہیں۔
کشمیرکے وسیع ترمفادات میں ’’کشمیر نریٹو‘‘ وضع اور اختیار کرنا ملک کے آئین کے خلاف نہیں تو پھرا س راستے کواختیار کرنے میں آخر کونسی قباحت ہے ۔ا س کے برعکس ہر سیاسی قبیلہ اور جرگہ لوگوں کومختلف نوعیت کے معاملات کے حوالہ سے مختلف خانوں میںتقسیم درتقسیم کرتاجارہاہے ۔ لوگوں کی تقسیم درتقسیم کا یہ سلسلہ برابر جاری ہے بلکہ شیطان کی آنت کی طرح لمبائی پکڑتا جارہاہے۔ یہ سیاست جہاں منفی ہے وہیں اس کے بطن سے معاشرتی سطح پر بہت سارے بگاڑ بھی پیدا ہوجاتے ہیں ، معاندانہ اندازفکر کے ساتھ ساتھ منفی اپروچ بھی بتدریج اپنا راستہ نکال لیتا ہے جس کے ردعمل میں پھرامن وقانون کے پیچیدہ اور سنگین مضمرات کے حامل مسائل بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔
یہ سیدھا سا نقطہ ہمارے سیاستدانوں کی سمجھ میں کیوں نہیںآرہاہے۔ کیوں وہ اپنے حقیر پارٹی اور ذاتی مفادات کے حصول کیلئے معاشرے کو بھی تقسیم کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ریاست کے وسیع ترمفادات کو بھی دائو پر لگانے پر مصر ہیں۔ کیا انہیں یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ ۷۵؍برس کشمیر کے تلف ہوئے اور اس تلفی کی تلافی کیلئے وہ کیوں عوام کو مزید ۷۵؍ سال کیلئے سلانے کے راستے پر گامزن ہیں؟