نیویارک//
نیویارک کے جج نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جائیدادوں اور دیگر اثاثوں کی مالیت بڑھا چڑھا کر پیش کر کے کاروباری معاملات میں دھوکہ دہی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔ یہ سابق امریکی صدر کے لیے ایک بڑی شکست تصور کی جا رہی ہے جو ان کے کاروبار کرنے کی اہلیت کو متاثر کر سکتی ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق مین ہٹن میں نیویارک کی ریاستی عدالت کے جسٹس آرتھر اینگورون کا سخت فیصلہ ریاست کے اٹارنی جنرل لیٹیا جیمز کے لیے دو اکتوبر کو طے شدہ مقدمے کی سماعت میں ہرجانے کا تعین آسان بنا دے گا۔
جسٹس آرتھر اینگورون نے ان سرٹیفکیٹس کی منسوخی کا بھی حکم دیا ہے جو ٹرمپ آرگنائزیشن سمیت ٹرمپ کے کچھ کاروباروں کو نیویارک میں کام کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔
جج نے بتایا کہ کس طرح ٹرمپ، ان کے بالغ بیٹوں ڈونلڈ جونیئر اور ایرک، ٹرمپ آرگنائزیشن اور دیگر مدعا علیہان نے اپنی کاروباری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اثاثوں کی مالیت بڑھا چڑھا کر پیش کی۔جسٹس آرتھر نے لکھا کہ ’یہ ایک خیالی دنیا ہے، حقیقی دنیا نہیں۔‘ٹرمپ اور دیگر مدعا علیہان نے موقف اپنایا کہ وہ کبھی دھوکہ دہی کے مرتکب نہیں ہوئے اور چیلنج شدہ لین دین منافع بخش تھا۔ وہ جسٹس اینگورون کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ٹرمپ کے وکیل کرسٹوفر کس نے ایک بیان میں کہا کہ ’آج کا اشتعال انگیز فیصلہ حقائق اور گورننگ قانون سے مکمل طور پر الگ ہے۔ صدر ٹرمپ اور ان کا خاندان انصاف کے عمل کے نقص کو دور کرنے کے لیے تمام دستیاب آپشنز استعمال کرے گا۔‘
اٹارنی جنرل لیٹیا جیمز کا کہنا ہے کہ وہ اپنے باقی کیس کو ٹرائل میں پیش کرنے کی منتظر ہیں۔یونیورسٹی آف مینیسوٹا لاء سکول کے ممتاز سکالر بل بلیک سمجھتے ہیں کہ ’یہ ایک تباہ کن فیصلہ ہے۔ کاروباری سرٹیفکیٹ کی منسوخی سے ٹرمپ کے رقم بنانے کی صلاحیت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔‘
نیویارک کی اٹارنی جنرل لیٹیٹیا جیمس نے ستمبر 2022 میں ٹرمپ کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔
لیٹیٹیا جیمس نے الزام لگایا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بینک اور بیمہ کنندگان کو پیش کردہ اپنے سالانہ مالیاتی گوشواروں میں اپنے اثاثوں کو دو اعشاریہ دو ارب ڈالر بڑھا کر پیش کیا تھا۔