کشمیر سے تعلق رکھنے والے طالب علموں ، پیشہ ورانہ اداروں میں داخلہ کے خواہش مند نوجوانوں اور ملکی سطح پر مقابلہ آرائی کے پیشہ ورانہ اور انتظامی اداروں کے حوالہ سے امتحانات میں شرکت کو کچھ عرصہ سے محسوس اور غیر محسوس طریقوں سے محروم رکھنے کی جو کوششیں ہورہی ہیں وہ باعث تشویش ہیں۔
ایسا کیوں ہورہاہے اور کیوں کچھ ریاستوں میںپیشہ ورانہ اور تعلیمی اداروں میںداخلہ پانے والے کشمیری طالب علموں کو مختلف حیلوں اور بہانوں کی آڑ میں نشانہ بنایا جارہا ہے اس حوالہ سے کشمیر کے سماجی، عوامی اور سیاسی حلقوں میں مختلف انداز سے قیاس آرائیوں اور مفروضوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ البتہ اس بات پر سبھی حلقے متفق ہیں کہ اگر مرکزی سطح پر حکومت کشمیری طالب علموں کے خلاف اس مبینہ نفرت ، تعصب اور شرانگیزی سے عبارت اپروچ کا سنجیدہ نوٹس لے کرا س نظریہ کے پیروکاروں اور سہولت کاروں کے خلاف کڑی تادیبی کارروائی کریگی بصورت دیگر آنیو الے وقتوں میں کشمیر سے اس کا منفی ردعمل بھی سامنے آسکتا ہے کیونکہ محسوس کیاجارہاہے کہ ہر بات کی ایک حد اور ایک اعتدال ہواکرتا ہے جبکہ صبر وتحمل کے حوالہ سے بھی کچھ پیمانے مقرر ہیں اور خدا نخواستہ یہ پیمانے اور حدود تجاوز کرگئے تو وہ ساری کوششیں اور اقدامات زمین بوس ہوکر رہ سکتے ہیں جو اب تک خود مرکزی سطح پر کشمیرمیںاستحکام اور قیام امن کے حوالہ سے اُٹھائے جاتے رہے ہیں۔
فتح گڑھ پنجاب میں واقع دیش بھگت نامی یورنیوسٹی میں زیرتعلیم طالب علموں کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک روا رکھا گیا اور جس کے نتیجہ میں ان بچوں کو ذہنی، نفسیاتی او راعصابی پریشانیوں سے دو چار ہونا پڑا اس کا احساس نہ مرکزی سطح پر ملکی قیادت کو ابھی تک ہوا ہے اور نہ ہی پنجاب کی کیجریوال کی قیادت میں پارٹی کی حکومت نے یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف ان کے مجرمانہ کردار اور چار سو بیسی سے عبارت قول وفعل کے واضح ثبوتوں کے باوجودکوئی عبرت ناک کارروائی کی۔ صرف دکھاوے کی حد تک یونیورسٹی انتظامیہ سے کہاگیا کہ وہ ہر متاثرہ طالب علم کو ہر جانہ کے طور دس لاکھ روپے ادا کرے۔ کیا یونیورسٹی انتظامیہ نے پنجاب سرکار کے اس حکم کی تعمیل میں طالب علموں کو ادائیگی کی یا اس حکم نامہ کو چیلنج کیا اس کے بارے میں اب پُر اسرار خاموشی ہے۔
دیش بھگت یونیورسٹی کے مجرمانہ کردارکی حامل انتظامیہ کی جانب سے جو کچھ معاملہ سامنے آچکا ہے وہ کشمیر میں ان لوگوں کے لئے اب چشم کشا ہونا چاہئے جو اپنی عمر بھر کی محنت کی کمائی ملک کے ان پیشہ ورانہ اور تعلیمی اداروں کی تجوریوں کی زینت بنانے کیلئے ٹرپ رہے ہوتے ہیں کیونکہ ان کی صرف اتنی سی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے کچھ حاصل کریں اور پھر خاندا ن کے ساتھ ساتھ قوم کا بوجھ بھی بحیثیت کل کے معمارات کے سنبھالنے کے اہل بن جائیںلیکن کشمیر یوں کے خلاف وقفے وقفے سے جو معاملات سامنے آتے رہتے ہیں اُن مسلسل رونما ہورہے واقعات کشمیر میں بحیثیت مجموعی اس سوچ کے جنم کا موجب بن رہے ہیں کہ اگر ملکی سطح کے ان اداروں کا رویہ اور سلوک نفرت ، تعصب اور شرانگیزی سے عبارت ہوتارہا تو پھر کشمیر ی طلبہ کی تعلیم وتربیت کے حوالہ سے کوئی دوسرا راستہ بطور آپشن کے بروئے کار لانے کی ضرورت ناگزیر بن جائیگی۔
ہرسال کشمیر سے کروڑوں روپے کا نکاس ہورہاہے، یہ سرمایہ ملک کے اندر اور ملک کے باہر بنگلہ دیش، مصر ، روس ، مغربی اور یوروپی ممالک وغیرہ کے تربیتی اداروں میںداخلہ حاصل کرنے پر صرف کیاجارہاہے، اس سرمایہ کی کشمیرکے اندر ہی سرمایہ کاری کرکے بیک وقت مختلف پیشہ ورانہ کورسوں کے مدارس اور اداروں کا قیام عمل میں لایاجاسکتاہے، یہ عمل کسی بھی حوالہ سے جوئے شیر کی مترادف نہیں، بس عمل پیہم درکار ہے۔
اسی دوران اب یہ خبر بھی گشت کررہی ہے کہ بڈگام میںواقع این ٹی اے کا امتحانی مرکز کو حکام نے مبینہ طور سے بند کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ مبینہ فیصلہ کشمیرکے مستقبل کے معماروں پر ایک اور حملہ ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کیوں متعلقہ حکام اس نوعیت کا غیر دانشمندانہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئے یااس فیصلے کے پیچھے کسی نوعیت کے عوامل کارفرما ہیں البتہ بادی النظرمیںیہی دکھائی دیتا ہے کہ کشمیرسے تعلق رکھنے والے اس امتحان میں شرکت کے خواہش مند نوجوانوں کو پیچھے دھکیل کرانہیں روزی روٹی اور مستقبل کی ذمہ داریوں سے محروم کرنے کی نیت سے ہے۔
جب جب بھی ملکی سطح کے کسی شعبے کے امتحانات میں کشمیری نوجوانوں کی شرکت کا معاملہ سامنے آتا ہے تو یا تو امتحانی مرکز کو جموں یا ملک کے دیگر خطوں میں منتقل کردیاجاتا ہے۔ ریکارڈ پر ہے جب بھی ایسا کوئی مرحلہ پیش آیا تو مقامی ایڈمنسٹریشن کو مداخلت کیلئے مجبور ہونا پڑا تب کہیں جاکر کسی امتحانی مرکز کو سرینگر میں رکھنے پر آمادگی ظاہر کی گئی۔
اداروں کی اس نوعیت کی پالیسیوں یا طریقہ کار کے پیچھے پوشیدہ مقاصد کیا ہیں اگر چہ اس بارے میں کبھی کچھ واضح طور سے سامنے نہیں آتا رہا البتہ کشمیرمیں یہ تاثر اب قدرے مستحکم ہوتا جارہا ہے کہ اس نوعیت کا طرزعمل دانستہ ہے جس کا مقصد کشمیرکو ہر شعبے میں محروم رکھ کر محتاجی کے دلدل میں دھکیلنے کے سوا اور کچھ نہیں ۔
بلاشک و شبہ کے کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کشمیرمیںنوجوانوںکی طبع وتفریح ، کسی حد تک روز گار کے تعلق سے نئی فصل تیار کرنے کی سمت میں سپورٹس کو بڑھاوا دیاجارہا ہے اور زیادہ سے زیادہ تعداد میںنوجوانوں کی شرکت کو یقینی بنانے کیلئے نئے کھیل میدان بھی تیار کئے جارہے ہیں یہ بجائے خود اچھا قدم ہے لیکن اس کے باوجود سوال یہ ہے کہ کھیل سے وابستہ ہوکر کتنے نوجوان اپنا روزگار حاصل کرنے میںکامیاب ہوجائیں گے جبکہ جموںوکشمیر میں ترقیات اور تربیت کے بہت سارے دوسرے شعبے بھی موجود ہیں جن کیلئے افرادی قوت درکار ہے۔ یہ مطلوبہ افرادی قوت کھیل کے میدانوں سے حاصل نہیں کی جاسکتی ہے ۔ اس تعلق سے جو کوئی بھی پالیسی ہے اُس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
سماجی اور عوامی سطح پر کشمیر لیفٹنٹ گورنر اوران کی قیادت میں ایڈمنسٹریشن سے یہ توقع رکھی جارہی ہے کہ وہ بیرون کشمیر تعلیمی اور پیشہ ورانہ اداروں میں زیرتعلیم وتربیت کشمیری بچوں کی صحت سلامتی اور بقاء کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار ماحول کے قیام کویقینی بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے گی تاکہ آ نے والے وقتوں میں قیام امن اور عدم استحکام کے حوالوں سے جو خدشات اب بتدریج گھر کرتے جارہے ہیں وہ خدشات اور تاثرات ختم ہوجائیں اس سلسلے میں سابق وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ نے جو ماڈل وضع کرکے نافذ کیاتھا اس کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی ریاستوں کے حکومتی ذمہ داروں کے ساتھ بھی معاملات اُٹھانے کی توقع کی جارہی ہے۔