کشمیر کی ترقی بشمول انسانی وسائل کی ترقی میں خود کشمیر کا کتنا حصہ ہے، اس بارے میں قابل اعتماد اعداددستیاب نہیں البتہ زندگی کے مختلف شعبوں بشمول پیشہ ورانہ اور درس وتعلیم کے حوالوں سے جو کچھ بھی ڈاٹا دستیاب ہے وہ اٹکلیوں اور قیاسات پر مشتمل ہے۔تاہم اس بات پر ہر حلقہ متفق ہے کہ کشمیر کو جو معمولات اور مسائل درپیش ہیں ان میں اب بڑی تیزی کے ساتھ ’’برین ڈرینBrain Drain‘‘ کا مسئلہ اُبھر رہاہے جبکہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگرا س برین ڈرین کو روکا نہ گیا اور اس کا حل تلاش نہیں کیا گیا تو آنے والے محض چند برسوں کے دوران کشمیر ہر اعتبار سے اور ہر شعبے میں خود کو بچھڑا اور پسماندگی کے دلدل میں پاسکتا ہے۔
اگر چہ اس سوال پر سماجی سطح پر بھرپور فکرمندی کے ساتھ بحث وتکرار ہورہاہے اور اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی سمت میں کچھ ٹھوس اقدامات اُٹھانے کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے لیکن حیرت انگیز طور سے انہی بحث وتکرار میںاُلجھے لوگوں کے اپنے کردار پر نگاہ پڑتی ہے تو یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ خود ان کی اپنی حوصلہ افزائی ، سہولت کاری اور سرمایہ کی فراہمی اور آشیرواد کے ساتھ ان کے اپنے بچے اڈان بھر چکے ہیں۔
یہ دوہرامعیار ہے۔ قومی اور معاشرتی سطح کے معاملات کے حوالہ سے دوہرے معیار ات اور دوہرے پیمانے نہیں ہونے چائیں کیونکہ جو لوگ وقتی مفادات کی عینک سے معاملات کو دیکھنے کے خوگر ہیں اور پھر اسی فکر وعمل کے تحت اپروچ بھی یہی رکھتے ہے تو ضرب المثل کے مصداق بیک وقت دو کشتیوں میںسوار بالآخر ڈوب ہی جاتے ہیں۔
کشمیر کے حوالہ سے یہ بات بھی اپنی جگہ ناقابل تردید ہے کہ بیرونی ریاستوں سے ہر سال لاکھوں افراد روزگار اور چھت کی تلاش میں واردِ کشمیر ہورہے ہیں جبکہ ان میں سے اچھی خاصی تعداد اب یہی رہائش اختیار کرچکی ہے خاص کر دفعہ ۳۷۰؍ اور ۳۵؍اے کے خاتمہ کے بعد بہ شکل لشکر بیرونی ریاستوں سے مختلف پیشوں سے وابستہ لوگ کشمیرمیں رہائش اختیار کرتے جارہے ہیں، بے شک یہ سارے کسی نہ کسی حوالہ سے کشمیر کی معیشت، تعمیر وترقی اور دوسرے اہم شعبوں میں اپنی محنت کے بل پر اہم کردار اداکررہے ہیں لیکن خود کشمیر کا سپوت خود کو کشمیر میں بے روز گار محسوس کررہاہے، وہ یہ بھی محسوس کررہاہے کہ اس کا حال یہ ہے تومستقبل اس سے کہیں زیادہ اس کیلئے ابتر ہوسکتا ہے لہٰذا ہجرت کا راستہ اختیار کرکے کوئی راست روزگار تلاش میں تو کوئی درس وتدریس کے حصول کے لئے ٹنل پار کے علاوہ ملک کی سرحدوں سے باہر کہیں اور جانے کے پر باندھتا رہتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اسی پرواز کا تعلق برین ڈرین سے ہے۔ لیکن کچھ ایسے سوالات بھی ہیں جن کا جواب ماہرین اقتصادیات اور ماہرین نفسیات کے پاس بھی نہیں خاص کر جب وہ کشمیر اور کشمیریوں کے مزاج، کشمیریوں کی سوچ، انداز فکر، طرزعمل ، خواہشوں اور حصولیابیوں کے حوالوں سے معاملات کا احاطہ اور تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ناکام ہوجاتے ہیں۔ لیکن وہ خود یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ کشمیرمیں سرمایہ داروں یا دوسرے الفاظ میں کروڑ پتیوں کی کوئی کمی نہیں ہے، پھر کیوں۔ خود کشمیر میں سرمایہ کاری نہیں کرتے بلکہ برعکس اس کے وہ بیرونی سرمایہ کاری کی توقع کرتے ہیں اور اسی کو ترجیح بھی دے رہے ہیں۔
اگر چہ چند سیاحت کی صنعت میں سرمایہ کاری کررہے ہیں لیکن اس حقیقت کو یاتو نظر انداز کیاجارہاہے یا انہیں اس کا ادراک نہیں کہ آخر یہ سیاحت کتنے لوگوںکو مزید اپنے اندر سموکر ا نہیںروزگار فراہم کرپائیگی ،کشمیر کا سرمایہ کار تعمیر وترقی ، تعلیم اور دوسرے کلیدی شعبوں بشمول پیداواری صلاحیت کے حامل شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے تیار نہیں جن شعبوں میںسرمایہ کاری کے عوض نہ کشمیر سے برین ڈرین کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے بلکہ مقامی سطح پر تعلیم اور دوسرے پیشہ ورانہ شعبوں سے فراغت پانے کے بعد نوجوان روزگار حاصل کرسکتاہے۔
تعلیم اور تعلیم سے ہی وابستہ پیشہ ورانہ تعلیم کے شعبے پر نظرڈالی جائے تو ہر سال ہزاروں کی تعداد میں کشمیری نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ملک کی مختلف ریاستوں کے علاوہ بنگلہ دیش ، ایران، مصر، روس اور چند مغربی ویوروپی ممالک کارُخ کرکے داخلہ لے رہے ہیں۔ ان شعبوں میںداخلہ پانے کیلئے فی کس پچاس اور ساٹھ لاکھ روپے کے درمیان مالی بوجھ برداشت کیاجارہاہے ۔ کشمیر سے اس طرح سالانہ کروڑوں روپے بیرونی کشمیر منتقل ہورہاہے۔ یہ ذرکثیر اُس سرمایہ کے مقابلے میںعشر عشیر بھی نہیںجو بیرون ریاستوں سے غذائی اجناس، ادویات، تعمیراتی سامان، ٹیکسٹائل ، اسٹیشنری ، رنگ وروغن ، ہر ایک شعبے کے تعلق سے ریڈی میڈ سامان، پولٹری، گوشت، پھل ، سبزیاں وغیرہ کی درآمدات کے شعبے میںکشمیر سے کی جارہی ہے۔
اس اعتبار سے دیکھاجائے تو کشمیر کو گذشتہ ۷۵؍ برسوں کے دوران ہر شعبے میں ایک کھپت والی ریاست کے طو ر ترقی دی جاتی رہی ہے۔ جو بھی حکمران آیا یا جس کسی سیاسی پارٹی کو اقتدار میں لایا گیا اس کی بحیثیت مجموعی ہمیشہ یہی کوشش ہوتی رہی کہ اس کے اپنے مفادات کن راستوں کواختیار کرتے ہوئے محفوظ بنائے جاسکتے ہیں۔کشمیرمیں صنعتوں کی بُنیاد رکھنے یا اگر کوئی صنعتی یونٹ یا کارخانہ قائم بھی ہوا تو اس کو مضبوط بُنیادیں عطاکرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی، کورپشن اور استحصال کے ساتھ ساتھ کنبہ پروری اور اقربا نوازی کا ہر راستہ محفوظ بنایاجاتارہا اور ان کی سرپرستی کی جاتی رہی، ۵۲ء کے فوراًبعد فارسٹ لیسیوں کی فوج تشکیل دی گئی جس نے جنگلات کی دولت کو اپنی جاگیر سمجھ کر لوٹ لیا اور اپنی تجوریاں بھری، یہاں تک کہ جب رائیلٹی کی ادائیگی کا تقاضہ اگر کیا گیا تو منظور نظر عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کئے جاتے رہے ، کیا کچھ نہیں کیاگیا جس کی روشنی میں کشمیر کو ایک کھپت والی ریاست کے طور ترقی نہیں دی جاتی رہی۔ اس کی بُنیاد بخشی دور میں رکھی گئی۔
کشمیر کو ہر شعبے کے تعلق سے دست نگر اور محتاج کیوں بنایاگیا اس کے پیچھے کئی ایک محرکات اور وجوہات ہیں، ممکن ہے کہ کچھ کاتعلق سیاسی مصلحتوں سے بھی رہا ہو۔ لیکن سب سے اہم وجہ یہ تصور کی جارہی ہے کہ جہاں کہیں سیاسی سطح پر عدم استحکام ہوگا، امن وامان کی صورتحال بگڑی ہوگی، لوگوں کا اپنا کوئی مخصوص مگر متفقہ بیانیہ نہیں ہوگا، جس قوم کے سیاستدان اور رہبری کے دعویدار قوم کے تئیں مخلص نہیں ہوں گے بلکہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے رہتے ہوں گے اُس قوم اور سماج کا یہی حشر ہوتا ہے ۔ کشمیر کی تاریخ مستثنیٰ نہیں۔
لیکن اس تلخ اور محرومی سے عبارت کشمیرکے ماضی اور ماضی قریب سے کوئی سبق حاصل نہیں کیاجارہاہے۔ اس وقت جبکہ بدلے حالات میں سوچ بدل رہی ہے،ا پروچ کے پیمانے تبدیل ہورہے ہیں، بیرونی سرمایہ کاری کی توقعات بڑھ رہی ہیں، مختلف خطوں کو سڑک، ریل اور دوسرے ذرائع کو بروئے کار لاکر ایک دوسرے کے قریب لایا جارہا ہے، تو کشمیرکا وہ طبقہ جو کچھ مثبت کردار اداکرنے کی صلاحیت، وسائل اور طاقت رکھتا ہے بدستور تماشہ بین بنا ہوا ہے اور کشمیر سے برین ڈرین کے سنگین مضمرات کے حامل معاملے کو دوسروں کی انفرادی پسند اور عمل کانجی معاملہ قرار دے کر بالکل وہی کردار اداکررہاہے جو کردار کشمیر کا ایک ہمسایہ ملک کا سرمایہ دار طبقہ اپنے ملک کے ساتھ کررہاہے۔