سابق رأRAWسربراہ اے ایس دُلت نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے اس مطالبے کہ کشمیرمیں قیام امن اور سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کیلئے پاکستان سے بات چیت ناگزیر ہے کی یہ کہکر حمایت وتائید کی ہے کہ کشمیرکی زمینی صورتحال اِسی آپشن کا تقاضہ کررہی ہے۔
دُلت سرکردہ صحافی کرن تھاپر کے ساتھ ایک انٹرویو میں شریک تھے جو کُکر ناگ انکائونٹر کے مخصوص تناظرمیں کیاگیا۔ اے ایس دُلت نے کشمیر کی عسکری، سیاسی، انتظامی اور سکیورٹی صورتحال کے تناظرمیں کئی پہلوئوں پر اپنی مخصوص آراء کا اظہار کیا ہے ، ان کی ان آراء کے ساتھ بحیثیت کلی یا جزوی اتفاق کرنے کی کسی حد تک گنجائش ہے جبکہ عدم اتفاق کا راستہ بھی کھلا ہے۔
تابڑ توڑ سوالات کا جواب دیتے ہوئے دُلت نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے پاکستان کے ساتھ بات کرنے کے مطالبے کا دفاع بھی کیا اور حمایت بھی کی کیونکہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ فاروق عبداللہ جموںوکشمیر کے سب سے بڑے اور سینئر ترین سیاستدان ہیں، انہیں معاملات کا اچھی طرح سے فہم وادراک ہے اور جب وہ پاکستان کے ساتھ بات کرنے کا مشورہ دیتے ہیںتوظاہر ہے ایسا کرنے کیلئے ان کے پاس کوئی مخصوص جانکاری ہویا کوئی معقول جواز ہو، یہ ضروری نہیں کہ فاروق عبداللہ ان جانکاریوں کو سامنے لائیں ، اس کے باوجود یہ فرض کیاجاسکتا ہے کہ دلی اور اسلام آباد کے درمیان کسی نہ کسی سطح پر رابطہ برقرار ہوگا اور آپس میں یہ بات کررہے ہوں گے ، لیکن اس بات کو بھی خارج از امکان قرارنہیں دیاجاسکتا ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی ملک میں عام انتخابات سے قبل غالباً اس سال کے آخیر تک پاکستان سے بات کرنے کی پہل کرسکتے ہیں‘‘۔
کُکرناگ انکائونٹر کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے دُلت نے دعویٰ کیا کہ یا تو یہ انکائونٹر چھاپہ ماری کا نتیجہ تھا یا ڈبل کراس کا نتیجہ ۔ البتہ ان کا اس بات سے اتفاق ہے کہ صورتحال مکمل کنٹرول میں نہیں ہے جیسا کہ ایڈمنسٹریشن کی طرف سے دعویٰ کئے جارہے ہیں ۔ دُلت نے آرمی کے ایک سینئر آفیسر کے اس دعویٰ سے اتفاق نہیں کیا کہ مسلح دہشت گرد نیپال اور پنجاب کے راستوں سے واردِ کشمیر ہورہے ہیں جبکہ سینئر آرمی آفیسر کے اس دعویٰ کی تکذیب انہی کے ایک آرمی بریگیڈ کرچکے ہیں۔ ان کا جوابی سوال یہی رہا کہ کہاں نیپال اور کہاں کُکر ناگ!
اِس تناظرمیں ان کا کہنا تھا کہ سرینگرمیں اوسطاً ایک سو فٹ کے فاصلے پر ایک مسلح فورسز اہلکار تعینات ہے جبکہ دوسرے علاقوں کی بات ہی نہیں، یہ منظرنامہ بھی کشمیرمیں صورتحال کو کنٹرول کرنے اور جنگجوئیت کا صفایا کے دعوئوں کی تردید کیلئے کافی ہے۔ تاہم دُلت کا دعویٰ ہے کہ اگلے چھ ہفتوں کے دوران کشمیر عسکری فرنٹ پر ابتری کی جانب گامزن ہوسکتا ہے۔ اپنے اس دعویٰ کی انہوںنے کوئی وضاحت کی اور نہ ہی کوئی قابل جواز دلیل پیش کی، البتہ کہا کہ عسکری فرنٹ بہت زیادہ گرم ہوگا کیونکہ یہ سیزن ٹیرر سے منسوب ہے۔
سابق را چیف نے کشمیر کے موجودہ منظرنامے کے تناظرمیں کچھ پہلوئوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیرکے طول وارض میںموجودہ انتظامی سیٹ اپ کے خلاف زبردست بلکہ بڑے پیمانے پر ناراضگی پائی جارہی ہے۔ یہ ناراضگی دراصل بقول ان کے ’نفرت‘ ہے جو اس سیٹ اپ کے ہی بطن سے از خود پیدا اور اُبھر کر سامنے آرہی ہے۔ کوئی کشمیر ی آفیسر کسی ذمہ دار عہدے پر فائز نہیں ، سارے آفیسر بیرونی ریاستوں سے لائے گئے ہیں، جنہیں نہ مقامی زبان کی واقفیت ہے،نہ معاشرتی آداب اور مقامی لوگوں کی ضروریات کا احساس واحترام ہے اور نہ ہی ان کا عوام کے ساتھ رابطہ بن رہا ہے۔
تو پھر کیا اس صورت میں ریاستی درجہ کی بحالی اور اسمبلی الیکشن کا انعقاد اور عوام کی منتخبہ حکومت کے برسراقتدار آنے پر حالات پر قابو پایاجاسکتاہے کے جواب میں سابق سراغرساں سربراہ کا کہنا ہے کہ انہیں مستقبل قریب میں جموں وکشمیرمیںالیکشن ہوتے دکھائی نہیں دیتے، بلکہ کم از کم اگلے سال جون…جولائی تک تونہیں۔
بہرحال دُلت نے جو کچھ بھی کہا یہ پہلا موقعہ نہیں کہ جب اس نے کشمیر کے بارے میں اپنے خیالات اور محسوسات کو زبان دی ہو، وہ وقفے وقفے سے کشمیرکے تعلق سے اپنے خیالا ت اور مشوروں کو زبان دیتے آرہے ہیں لیکن دہلی میں موجودہ حکومتی سیٹ اپ اُن کی کسی بھی آراء یامشورے کو کسی خاطر میںنہیں لارہی ہے لیکن دُلت اس کے باوجود کشمیر آتے رہتے ہیں، یہاں اپنے روابط کے ساتھ ملتے ہیں، ان سے بات کرتے ہیں، مختلف اشوز پر اپنے ملاقاتیوں سے ان کی آراء دریافت کرتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ اور تعلق جوان کا عرصہ سے کشمیر سے ہے جاری ہے۔
اس انٹرویو اور اس میں ظاہر آراء کا محاصل یہ ہے کہ کشمیرمیں کیاہورہاہے کسی کو اس کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ معلوم نہیں ، مثال دیتے ہوئے کہا کہ لوگ لاپتہ ہورہے ہیں، سڑک پر چلتے کسی کوگاڑی کے نیچے کچلا جارہاہے ، کون کچل رہا ہے کسی کو کچھ پتہ نہیں، اس تعلق سے جنوبی کشمیر میں چند روز قبل ایک ریٹائر ڈ پولیس آفیسر کا حوالہ دیاجسے کسی گاڑی نے کچل کر ہلاک کردیا، لیکن کس نے کچلا اور گاڑی کس کی تھی کچھ پتہ نہیں۔ اس سارے منظرنامے کو وہ مایوس کن قرار دے رہے ہیں، ظاہر ہے اس کی یہ مایوسی کشمیرکے حوالہ سے اس کی بے بسی یا تشویش کی طرف اشارہ کررہی ہے۔
جیسا کہ اوپر آیا ہے کہ کچھ معاملات میںدُلت کی آراء سے اتفاق کی گنجائش ہے اور کچھ کے ساتھ نہیں البتہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو وہ سیاسی اور انتظامی معاملات کے تعلق سے بہتر بلکہ واحد قابل قبول اور قابل عمل آپشن تصور کررہے ہیں جبکہ تقریباً چار سال سے گھر میں نظربند میرواعظ کشمیر مولانا محمدعمر فاروق کو وہ اس تعلق سے دوسرا قابل عمل آپشن خیال کرتے ہیں۔ قومی دھارے سے وابستہ کشمیرنشین کچھ سیاستدانوں کے تعلق سے وہ اپنے خیالات کوزیادہ زبان نہیں دے رہے ہیںالبتہ پیپلز کانفرنس کے لیڈر سجاد غنی لون پر وہ ضرور سرپرستی کا ہاتھ ماضی میں رکھ چکے ہیں۔