کیجریوال کے پنجاب میں دیش بھگت یونیورسٹی میںزیر تعلیم وتربیت کشمیری طالب علموں کو جس انداز میںہجومی دہشت گردی کا نشانہ بنایاگیاہے وہ جہاں شرمناک ہے وہیں کیجریوال کے دست راست پنجاب کے موجودہ وزیراعلیٰ بھگوت سنگھ مان کے لئے چلو بھر پانی میں ڈوبنے کا مقام ہے۔
یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہ جب کشمیر ی طالب علموں کو ملک کے کسی شہر باالخصوص پنجاب میں واقع کسی تعلیمی یا تربیتی ادارے کی وساطت سے ہجومی دہشت گردی کا نشانہ بنایاگیا ہے بلکہ ایسے شرمناک اور متعصبانہ واقعات ماضی میں بھی وقوع پذیر ہوتے رہے ہیں۔ اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا نہ کوئی جرم ہے اور نہ ہی ملک کے وسیع تر مفادات کے تعلق سے کوئی غدارانہ فعل ہے لیکن اس کے باوجود جب جب بھی اور جہاں کہیں بھی کوئی کشمیری طالب علم اپنے حقوق، مفادات اور تحفظ کیلئے آواز بلند کرتا ہے تو نہ صرف ان کے ہم نشین طلبہ بلکہ بیرونی غنڈے بھی احاطہ میںداخل ہوکر ان پر حملہ آور ہوکر انہیں ہجومی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔
کشمیری طالب علموں کو جنونیت اور ہجومی تشدد اور دہشت گردی کا نشانہ بنانے کیلئے حیلے بہانے تلاش کئے جارہے ہیں۔ یہ طرز عمل اور ناروا بلکہ غیرانسانی سلوک ملک کے کسی بھی شہری کے ساتھ روا نہیں صرف اور صرف کشمیری طالب علم کو اس فکری اور متعصبانہ بلکہ سفاکیت کا نشانہ بنایاجارہاہے۔
ایسا کیوںہورہاہے اور جنون پرست فکری دہشت گرد کیوں کشمیری طالب علموں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنارہے ہیں اس سوال کاجواب ہر کشمیری کے پاس ہے لیکن وسیع ترمفادات ، یکجہتی اور فرقہ وارانہ بھائی چارے اور رواداری کے پیش نظر زبان دینے سے اجتناب کا راستہ اختیار کیاجارہا ہے۔
مرکزی وزارت داخلہ کا قلمدان جب موجودہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے ہاتھ میں تھا تو اُس دورمیں بھی کشمیری طالب علموں اور روزگار کے متلاشتی کشمیریوں کو اسی طرح فکری دہشت گردی کا نشانہ بنایاجاتا تھا، اس صورتحال کے ردعمل اور تدارک کے تعلق سے راج ناتھ سنگھ نے ملکی سطح پر کچھ اقدامات اُٹھائے، کچھ سینئر آفیسر وں کو بطور نوڈل آفسیران نامزد کیاگیا جبکہ ایسے شرمناک واقعات کو روکنے کیلئے کچھ اور اقدامات بھی اُٹھائے گئے لیکن آہستہ آہستہ یہ سارے اقدامات پس منظرمیں چلتے گئے، تحفظ اور بقاء کو نظریہ ضرورت کا مطیع بنائے جانے کی رو ش حاوی ہوتی گئی، سب سے بڑھ کر حملہ آوروں کی حوصلہ افزائی اس وجہ سے ہوتی رہی کہ پولیس بلند بانگ دعوئوں کے باوجود کسی غنڈہ گرد کو سلاخوں کے پیچھے نہیں ڈال سکی اور نہ ہی کسی تعلیمی یاتربیتی ادارے نے اپنے کسی غنڈہ نما دہشت گرد طالب علم اور ان کے بیرونی ساتھیوں کے خلاف تادیبی کارروائی کیلئے حرکت کی ۔ منتظمین اور پولیس کی پردہ پوشی اور حوصلہ افزائی کا ہی براہ راست شاخسانہ ہے کہ حملہ آوروں کے حوصلے پست ہونے کے بجائے بلند ہوتے گئے، فتح گڑھ میں واقع دیش بھگت یونیورسٹی کا تازہ ترین واقع اسی سفاکیت کا محض تسلسل ہے۔
کشمیری طالب علم ملک کے تعلیمی اور پیشہ ورانہ اداروں میں ذرکثیر صرف اور اداکرکے اس لئے داخلہ لیتے ہیں کہ کشمیرمیں اُس معیار کی تعلیم وتربیت دستیاب نہیں۔ ہر طالب علم سالانہ لاکھوں روپے کے اخراجات برداشت اس لئے نہیں کررہا ہے کہ وہ فکری دہشت گردوں کا نشانہ بنتا رہے۔ وہ حصول تعلیم وتربیت کیلئے اپنے والدین کی عرق ریزی کو دائو پر لگا رہا ہے لیکن فکر ی اور جنونی دہشت گرد انہیں سکون سے رہنے نہیں دیتے بلکہ حیلے بہانوں کی آڑ لے کر ان کی ہراسگی اورتنگ طلبی کو روزمرہ کامعمول بنارہے ہیں ۔ درحقیقت ان عنصر کا تعلق ملک کی اُن فرنج تنظیموں سے ہے جو وزیراعظم نریندرمودی کے سب کا ساتھ ،سب کا وکاس اور سب کا وشواش کے نظریہ کو نہ پسند کرتے ہیں اور نہ عملی جامہ پہنانے کی سمت میں راہداری دینے کے روا دار ہیں۔
کیا کشمیرمیں لاکھوں کی تعدادمیں ملک کی مختلف ریاستوں سے آئے مزدور، کاریگر، ہنرمند ، غیر ہنرمند، نجار، گلکار، مستری وغیرہ پیشوں سے وابستہ افراد رہائش پذیر نہیں اور آزادی اور مکمل رواداری کے جذبے کے ساتھ وہ اپنا روزگار حاصل کررہے ہیں۔انہیں کشمیر میں کسی بھی ہجومی تشدد یا حملہ کا خطرہ نہیں ہے ، کشمیرکے بی ایڈ کالجوں ، کچھ تربیتی اور پیشہ ور اداروں میں بیرونی جموں وکشمیر کے طلبہ درس وتدریس حاصل کررہے ہیں جنہیں کسی بھی طرح کے غیر انسانی اور غیر ہمدردانہ سلوک کا سامنا نہیں، کشمیرکا یہ مخصوص منظرنامہ جو روادار ی اور فرقہ وارانہ یکجہتی سے عبارت ہے ملک کے جنون پرست اور فکری دہشت گرد عنصروں کے لئے سبق بھی ہونا چاہئے اور نوشتہ دیوار بھی، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے ذہنوں اور فکر کو آلودہ بنایاگیا ہے، یہ اُسی نریٹو کا بھی شاخسانہ ہے جس نریٹو کو ملک کی کچھ مخصوص ذہنیت کی ٹیلی ویژن چینلوں نے اختراع کیا اور کشمیریوں کو عفریت کے طور ملکی رائے عامہ کے سامنے پیش کرتے رہے۔
دیش بھگت یونیورسٹی کے منتظمین کی دغا بازی ، جعلسازی اور فریب کاری کے خلاف اگر کشمیری طلبہ نے اپنے وسیع ترمفادات کے پیش نظر احتجاج کیا اور آواز بلند کی تو معاملہ طلبہ اورمنتظمین کے درمیان تھا، اس معاملے میں زیرتعلیم مقامی طالب علموں اور ان کے بیرونی غنڈہ گردوں کا کون ساحق مارا جاتا کہ وہ ٹڈی دل کی طرح کشمیری طالب علموں پر حملہ آاور ہوئے۔
ایسے ناخوشگوار واقعات کشمیر کے قیام امن کو آگ کی ایک نئی بھٹی کی نذر کرسکتے ہیں جس امن کے قیام او رحصول کیلئے کشمیر نے بہت کچھ سہا اور بہت کچھ کھویا بھی ہے۔ اس امن کی بقاء کی خاطر جموںوکشمیر انتظامیہ کا بھی فرض اور ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ ایسے ناخوشگوار واقعات کی روک تھام کو یقینی بنانے کیلئے حرکت میں آکر پہل کرے، معاملات کومتعلقہ منتظمین اور حکومتوں کے ساتھ اُٹھائے اور اُن پر یہ بات واضح کردی جائے کہ وہ اپنے اداروں کے اندر ڈسپلن کو نہ صرف بنائے رکھیں بلکہ طالب علموں کی سلامتی اور بقاء کے لئے مناسب اقدامات بھی اُٹھائیں تاکہ کشمیر میں اس نوعیت کے واقعات کا کوئی ناخوشگوار ردعمل کسی سڑک پر نظرنہ آئے۔
اس تعلق سے کشمیرکی سول سوسائٹی اور مختلف سیاسی پارٹیوں نے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے بھی درخواست کی ہے کہ وہ اس نوعیت کے معاملات کا نوٹس لیں اور متعلقہ اداروں کے منتظمین پر دوٹوک الفاظ میں یہ بات واضح کریں کہ ہم نے بحیثیت سٹیٹ کے قیام امن اور استحکام کی سمت میں حالیہ برسوں کے دوران جو محنت کی ہے اُس محنت پر کسی بھی طرح سے پانی پھیر نے کے متحمل نہیں ہوسکتے لہٰذا وہ اپنا ذمہ دارانہ کردار اداکریں۔