آئین کی کالعدم شدہ دفعہ۳۷۰؍ کے حوالہ سے سپریم کورٹ میں طرفین نے اپنے دلائل پیش کردیئے جس پر سپریم کورٹ کی ۵؍ رکنی بینچ نے فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے اور توقع ہے کہ یہ فیصلہ اس سال کے آخیر تک سنایاجائے گا۔
سپریم کورٹ میں تقریباً دو ہفتوں کی مسلسل سماعت کے دوران فریقین کے وکلا نے آئین کی مختلف دفعات، پارلیمنٹ میں آئینی دفعات کی تشریح کے حوالہ سے اپنے وقت کے قانون سازوں کی آرائیں، زمینی اور تاریخی واقعات کے تناظرمیں اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کیااور کوشش کی کہ انہی کی طر ف سے جو دلائل پیش کئے جاتے رہے سپریم کورٹ ان کو معقول، باوزن اور لچکدار تصور کرکے اپنا فیصلہ سنادے۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے بھی موقعہ محل اور پیش کی جارہی دلیلوں کے جوابات پر وکلاء سے سوالات کئے اور وضاحتیں طلب کیں۔
سپریم کورٹ کے احاطے سے باہر مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ کچھ لیڈران دفعہ ۳۷۰؍ کی منسوخی کے حق اور کچھ اس کی بحالی کے تعلق سے اپنے خیالات اور نقطہ نظرپیش کرتے رہے قطع نظر اس بات کے کہ دفعہ ۳۷۰؍ کے تعلق سے معاملات ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں زیر سماعت ہیں اور ان کی بیان بازی کسی نہ کسی اعتبار سے نہ صرف ان کی سیاسی اور اخلاقی پستی کا مظہر ہے بلکہ عدالت کی توہین بھی ہے۔ لیکن کسی نے اس کی پروانہیں کی۔
سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کا فی الحال انتظار ہے تاہم جن لوگوں نے دفعہ ۳۷۰؍ کی منسوخی کے خلاف آئینی پٹیشن پیش کئے عدالت میں ہوئی بحث کے تناظرمیں وہ پر اُمید ہیں کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے گا، کچھ کا دعویٰ ہے کہ حکومت اس تعلق سے کسی بندگلی میں پھنس گئی ہے تو کوئی اور ہی نظریہ پیش کررہاہے۔ لیکن کچھ ایک نکات ایسے بھی ہیں جن کو سپریم کورٹ کے روبرو سماعت کے دوران پیش کیاگیا۔
اس حوالہ سے سرکاری وکلاء کی ٹیم کے ایک رکن ایڈوکیٹ راکیش دیویدی نے عدالت میں یہ کہکر تقریباً سنسنی پھیلائی کہ آئین کی دفعہ ۳۷۰؍ خاتمہ سے قبل مرکزی سرکار نے جموںوکشمیر سے وابستہ پارلیمنٹ ممبران کو اعتماد میں لیا تھا۔ یہ دعویٰ پہلی بار سامنے آیا ہے کیونکہ خود کچھ پارلیمنٹ ممبران دفعہ کی منسوخی کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور حکومت کے اس اقدام کو غیر آئینی اور غیر قانونی کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ساتھ عہد شکنی تک قرار دیتے رہے ہیں۔یہاں تک کہ سپریم کورٹ میں ان میں سے کچھ بحث کے دوران موجود رہے اور باہر آکر اپنی اس اُمید کا اظہار بار بار کرتے رہے کہ انہیں اُمید ہے کہ سپریم کورٹ’ہمارے ساتھ انصاف‘ کرے گی۔
دفعہ ۳۷۰؍ کے خاتمہ کے وقت پارلیمنٹ میں نیشنل کانفرنس کے تین ارکان کے علاوہ پی ڈی پی کے دو ،کانگریس کے غلام نبی آزاد، بی جے پی کے چار بشمول لداخ کی ایک رکنیت کے موجود تھے تو سرکاری وکیل مسٹر دیویدی کے دعویٰ کی بُنیاد پر کیا کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، حسنین مسعودی ، اکبر لون، غلام بنی آزاد، میر فیاض اور نذیر لاوے نے دفعہ ۳۷۰؍ کے خاتمہ کی سمت میں مرکزی سرکار کے ہاتھ پر بیعت کی تھی؟ معلوم نہیں، کیونکہ دیویدی کے دعویٰ کے کئی روز گذرنے کے باوجود ابھی تک ان میں سے کسی نے نہ تردید کی اورنہ ہی تصدیق! اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ فی الوقت تک سرکاری وکیل دیویدی کا دعویٰ یکطرفہ ہے جبکہ ان لیڈران کی خاموشی کو یاتو ان کی کسی مفاہمتی مصلحت کے طور لیا جاسکتا ہے یا ان کا دوغلا پن؟
اس دعویٰ کے تناظر میں ایک اور پہلو جو توجہ طلب اور غور طلب ہے وہ یہ کہ اپنی پارٹی کے سربراہ سید الطاف بخاری نے یہ سوال پوچھ کر کہ کیوں ان ممبران پارلیمان نے دفعہ ۳۷۰؍ کی منسوخی کے وقت پارلیمنٹ کی رکنیت سے استعفیٰ نہیںدیا جواس بات کی طرف واضح اشارہ کررہاہے کہ پارلیمان کے یہ ارکان دفعہ ۳۷۰؍ کی منسوخی کے فیصلے میں اہم شریک ہیں۔ سوپور میں ایک اجتماع سے خطاب کے دوران سید الطاف بخاری نے کہا کہ استعفیٰ نہ دے کر ان ممبران نے لوگوں کے اعتماد اور پیٹ میں چھرا گھونپ دیا ہے ۔
مرکزی سرکار کے فیصلے سے محض چند گھنٹے قبل ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت میںپارٹی کے ایک وفد نے وزیر اعظم نریندرمودی کے ساتھ ملاقات کی ، ملاقات کے کئی ماہ نظر بندی سے رہائی کے بعد کئی ایک مرتبہ فاروق عبداللہ انکار کرتے رہے اور مسلسل دعویٰ کرتے رہے کہ وزیراعظم نے ان سے آئینی ضمانتوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کی جبکہ فی الوقت تک نیشنل کانفرنس اپنے اسی دعویٰ پر قائم ہے۔
غلام نبی آزاد بھی دفعہ ۳۷۰ کی بحالی کے حوالہ سے اپنے موقف کا اعادہ کرتے آرہے ہیں اگر چہ کانگریس سے علیحدگی کے بعد وہ بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ یا تو حکومت یا پارلیمنٹ دفعہ ۳۷۰ کو بحال کرسکتی ہے۔البتہ راکیش دیویدی ایڈوکیٹ کے دعویٰ کے تناظرمیں ابھی تک نہ اس کی تصدیق سامنے آئی ہے اور نہ تردید!پی ڈی پی کے دو سابق ارکان بھی فی الوقت تک خاموش ہی ہیں۔
اس سارے تناظرمیں لوگ یقیناً مخمصے میں ہیں، وہ کس پر بھروسہ کریں گے، سیاست دان اپنے جیبوں میں مختلف چہرے رکھتے پھر رہے ہیں، لوگوں کے سامنے آکر کوئی اور زبان بول رہے ہیں، اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھ کر کوئی دوسری زبان بول رہے ہیں اور اپنے محلات میں کوئی اور ہی منصوبہ بندی اور خاکے مرتب اور وضع کرتے رہتے ہیں۔
کشمیر کی سیاسی اُفق پراب تک کے گذرے ۷۵؍ برسوں کے دوران جتنے بھی سیاسی چہرے جلوہ گر ہوئے، عوام کی طرف سے بھر پور اعتماد اور منڈیٹ تفویض کرنے کے باوجود ان سیاسی جرگوں کے سرپرستوں نے کسی ایک بھی مرحلہ پر عوام کی خواہشات کانہ احترام ملحوظ خاطر رکھا اور نہ کبھی خلوص اور دینداری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیئے ۔ قدم قدم پر انہوںنے لوگوں کو ناکام بنایا، لوگوں کو ناکام بنانے والے ان سیاستدانوں کی صف میں وہ سیاستدان اور کارکن بھی شانہ بشانہ شامل رہے ہیں جنہوںنے الحاق کو چیلنج کیا اور علیحدگی پسند نظریات پر مبنی ہلاکت خیزی سے عبارت تحریک کی قیادت کرتے رہے۔
کشمیرکے حوالہ سے اب تک کوئی ایک بھی متفقہ نریٹو نہ وضع کیا جاسکا اور نہ ہی پیش کیاگیا، جو بھی فیصلے لئے جاتے رہے لوگوں کو ان کے حوالہ سے اعتماد میںنہیں لیاگیا اور اگر کسی مرحلہ پر کوئی لیاگیا فیصلہ غلط ثابت ہوا اور جس کے نتیجہ میں منفی نتائج لوگوں کو بھگتنا پڑے ہیں پر بھی آج تک کسی ذمہ دار سیاستدان یا سیاسی پارٹی نے عوام سے معافی طلب نہیں کی۔ یہ کئی چہروں والی سیاست کا ہی ثمرہ ہے کہ لوگ ہر بوجھ اور خمیازہ بھگت رہے ہیں۔