سابق کانگریسی لیڈراور ڈی پی اے پی کے صدر غلام نبی آزاد کی ون نیشن ون الیکشن پینل میں نامزدگی کو لے کر آزاد اپوزیشن کے راڈار پر آگیا ہے اور کچھ اپوزیشن جماعتوں نے آزاد کے بارے میں اپنے پرانے موقف یا دعویٰ کہ اس کا تعلق حکمران جماعت بی جے پی کی ’بی‘ ٹیم سے ہے کا بھی اعادہ کیا ہے جبکہ خود آزاد کی پارٹی نے پینل میں ان کی نامزدگی کو آزاد کے سیاسی قد کا ثمرہ قرار دے کردفاع کیا ہے۔
آزادملکی سیاسی اُفق پر سالہاسال سے سرگرم ہیں اور بحیثیت کانگریس لیڈر اور راجیہ سبھا میں بحیثیت اپوزیشن لیڈر کے وہ اپنا بھر پور کردار اداکرچکے ہیں۔اس تناظرمیں نامزدگی کو دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ پینل میں نامزدگی ان کی انہی ملکی خدمات اور سیاسی قد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔ کانگریس سے علیحدگی اختیار کرنے اور اپنی قیادت میں اپنی پارٹی تشکیل دینے کامطلب یہ نہیں کہ ان کا سیاسی قد کسی تنزل کا شکار ہوگیا ہے اور وہ اب سیاسی یا انتظامی سطح پر کوئی خدمت انجام نہیں دے سکتے۔ قیاس ہے آزاد نے پینل میں اپنی نامزدگی کو یقینی بنانے کیلئے کسی لابی کا سہارانہیں لیا ہوگا بلکہ مرکزی سرکار نے جب ون نیشن ون الیکشن پینل کی تشکیل پر غور شروع کیا ہوگا اس کے سامنے بہت سارے نام زیر غور آئے ہوںگے، ان میں سے اگر حتمی طور سے آزاد کا انتخاب عمل میں لایاگیاہے تو اس پر اپوزیشن باالخصوص کانگریس کا اعتراض ، تنقید یا ’بی‘ ٹیم کا خطاب عطاکرنے کا نہ کوئی سیاسی جواز ہے اور نہ کوئی مضبوط اخلاقی جواز نظرآرہاہے۔
ویسے سیاسی جماعتوں کی آپسی رقابت ملکی سیاسی منظرنامے باالخصوص کشمیرکی سیاسی اُفق کے تعلق سے کوئی حیران کن نہیںبلکہ یہ سیاسی افق کا ان مٹ حصہ ہی تصور کیاجارہاہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر ایک سیاسی کارکن یا سیاسی لیڈر کے نظریات، خیالات اور طرزعمل میںیکسانیت ہو، کچھ معاملات میں وہ ہم خیال ہوسکتے ہیں لیکن جب وہ اپنے سیاسی اہداف، ایجنڈا اور مشن کے نظریے کے تحت میدان میں اُتر تے ہیں تو ہم خیال ہونے کے باوجود ان کے اپروچ میں بہت بدلائو آجاتا ہے۔
غلام نبی آزاد بھلے ہی حکمران جماعت کا ’بی‘ ٹیم نہ ہو لیکن وہ اپنی مخصوص شناخت کا حامل ہے ۔ حکمران جماعت کو اپنی تنقید برائے تنقید یا مخالفت برائے مخالفت کا بھی راستہ اختیار کرنے کا اس کے پاس کوئی معقول وجہ بھی ہونی چاہئے۔ جو فی الوقت تک نظرنہیں آرہی ہے ۔
آزاد حکمرا ن جماعت کے قریب ہیں ا س کیلئے آزاد کی اپنی کوئی خواہش، حکمت عملی یا سیاسی روڈ میپ بھی تو ہوسکتاہے ۔ وہ محسوس کرچکے ہوں گے کہ حکمران جماعت یا حکومت کے ساتھ قربت رکھتے ہوئے وہ اپنے کسی نہ کسی سیاسی ہدف ایجنڈا یا مشن کو حاصل کرسکتے ہیں۔ اس کیلئے ایسی کوئی مجبوری درپیش نہیں کہ وہ حکومت مخالف کیمپ یا کسی گٹھ بندھن کا حصہ بن جائے۔ سیاسی میدان میں اتر کرنئے سرے سے اپنا سیاسی کیرئیرشروع کرنے کیلئے ویسے بھی کئی ایک سہاروں اور بیساکھیوں کا سہارا تلاش کرنا پڑتا ہے۔ آزاد کو اگر بنی بنایا سہارا دستیاب ہے تو اپوزیشن کی پیٹ میں مروڑ کیوں؟ اس کی اپنی سیاسی دُنیا ہے، اپنا مخصوص سیاسی نظریہ ہے اور غالباً وہ اب تک ایک سے زائد بار یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ الیکشن میں بی جے پی یا اور کسی جماعت کے ساتھ (قبل از وقت) گٹھ بندھن نہیںکریں گے۔
بہرحال ون نیشن ون الیکشن پینل میں بحیثیت رکن نامزدگی سے سوال یہ ہونا چاہئے کہ آزاد کا ون نیشن ون الیکشن کے سوال پر نظریہ اور اپروچ کیا ہے۔ کیا وہ اس نظریے کی حمایت کریں گے یا مخالفت کیا وہ حکومت کے ارادوں اور ایجنڈا کو صحیح سمت میں صحیح قدم تصورکریں گے یا اپوزیشن کے اس نظریے کی حمایت اور تائید کریں گے کہ ون نیشن ون الیکشن کا نظریہ فیڈرل ازم کے منافی ہے بلکہ یہ طریقہ کار ملک میں فیڈرل سیٹ اپ کو تہس نہس کرکے رکھ سکتاہے۔
الیکشن کے حوالہ سے یہ ون نیشن کا نظریہ کیو ں پیش کیاگیا اور اب اس کو قابل عمل بنانے کی سمت میں جو کچھ اقدامات کئے جارہے ہیں ان کے بارے میں نہ بھر پور وضاحت دستیاب ہے اور نہ ہی کسی ادارے کی جانب سے رائے دہندگان کو اعتماد میںلیاجارہاہے۔ فی الوقت تک اس کی حیثیت ایک نعرہ کی ہے اور ایک نظریہ کی ہے، ویسے بھی اس نوعیت کے حساس معاملات میں رائے عامہ کو اعتماد میں لینے کی نہ کوئی روایت موجود ہے اور نہ ہی اس نوعیت کے بے حد حساس معاملات پر کسی ریفرنڈم کو ضروری سمجھا جارہا ہے ، ویسے بھی آئین میں اس حوالہ سے بادی النظرمیں کوئی ریفرنس موجود نہیں۔
بہرحال قطع نظر اس کے کہ پینل کی سفارشات کیا ہوں گی، سوال یہ ہے کہ اگر پینل ون نیشن ون الیکشن طریقہ کار کی ہی حمایت کرے گی تو اُس صورت میں سیاسی، انتظامی، سکیورٹی سطح پر درکار انتظامات کا بوجھ کس حد تک بڑھ سکتا ہے اور کیا ریاستیں اور الیکشن کمیشن اس طریقہ کار کے تحت اس قدر بوجھ اُٹھاسکتا ہے ؟ اخراجات کی بات نہیں کریں گے البتہ ایک نیشن ایک الیکشن کے اہتمام وانعقاد کے لئے سکیورٹی بندوبست ، ووٹنگ مشینوں کی مزید لاکھوں کی تعداد میں دستیابی، پولنگ بوتھوں پر تعینات کیلئے افرادی قوت کی فراہمی، پولنگ اسٹیشنوں کے قیام کیلئے مزید نئی جگہوں کی تلاش یہ اور اس سے ملحقہ دوسرے کئی معاملات ہمالیائی حجم کے نظرآرہے ہیں۔ جبکہ اس نئے الیکشن نظام کو عملانے اور قابل عمل بنانے کیلئے مرکزی اور ریاستی سطحوں پر کم سے کم چھ ماہ تک کوئی ترقیاتی اور فلاحی کام ناممکن بن سکتا ہے جس کا حتمی طور سے منفی اثرات روزمرہ کی زندگی اور معمولات پرمرتب ہوں گے۔
یہ خدشہ بھی ظاہر کیاجارہاہے کہ اتنے بڑے پیمانے پرالیکشن کی غیر جانبداری اور آزادانہ حیثیت بھی متاثر ہوسکتی ہے ۔البتہ ملک کا فیڈرل سیٹ اپ کس حد تک تہہ وبالا ہوسکتا ہے جیسا کہ بعض اپوزیشن حلقے دعویٰ کررہے ہیں اس بارے میں فی الوقت حتمی طور سے کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے لیکن کچھ حساس حلقے اس خواہش یا رائے کا اظہار کررہے ہیں کہ اس حجم کے الیکشن کی نگرانی اور اہتمام وانعقاد کیلئے ریاستوں اور مرکز میں نگران حکومتی سیٹ اپ کے قیام کی گنجائش نکالنے کا راستہ بھی ہموار کرنا چاہئے، جس کیلئے آئین اور مروجہ طریقہ کار میں ترمیم وتجدید کی ضرورت ہو اس کو اختیار کرنا چاہئے۔