مہنگائی کے بہت سارے جن دیو کشمیر پر نازل ہوئے ہیں اور ہر شئے جس کا تعلق روزمرہ استعمال اور ضرورت سے ہے کو اوسط شہری کی پہنچ سے دور کررہے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کشمیری ہاک بھی اوسط کشمیری کے کچن سے چند ریان کی رفتار کی مانند پہنچ سے دور بھاگ رہا ہے۔
اچانک یہ کیا ہوگیا ؟ یہ سوال ہر لب پہ ہے لیکن جواب نہیں مل رہا ہے۔ البتہ مہنگائی کے دیو کے سایہ فگن ہونے کے پیچھے کچھ لوگ اپنی اپنی فہم اور سمجھ کے مطابق جواز پیش کررہے ہیں جن میں کچھ وزن نظرآرہاہے تو کچھ کے بارے میں یہی تاثر مل رہا ہے کہ یہ محض قیاسات ہیں لیکن جو کچھ بھی ہے حقیقت یہی ہے کہ مہنگائی کا دیو کشمیرکے تعلق سے بے قابو ہوچکاہے اور اب یہ کسی کی پکڑمیں نہیں آئے گا بلکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ یہ مزید بے لگام اور بے قابو ہوتا جائے گا کیونکہ یہ اس کی فطرت ثانی ہے۔
بہرحال وجوہات جو کچھ بھی ہوں، ایک اہم وجہ بادی النظرمیں یہ محسوس ہورہی ہے کہ جس دن ایڈمنسٹریشن نے گوشت کو ڈی کنٹرول کرنے کا فیصلہ کرکے کوٹھداروں اور قصابوں کے روایتی منافع خور قبیلوں کو لوٹ کی کھلی لائسنس عطاکردی اُسی روز سے مارکیٹ بے قابو ہونا شروع ہوگیا۔ ڈی کنٹرول ہوتے ہی قصابوں نے گوشت کی اپنی مقررہ قیمت میں فی کلو پچاس روپے کا اضافہ کردیا جبکہ حقیقت میں یہ اضافہ ۱۶۵؍ روپے فی کلو کردیاگیا۔
مارکیٹ کے حوالہ سے وہ دوسرے سٹیک ہولڈر جن کا تعلق مختلف استعمال کی اشیاء سے ہے نے بھی آو دیکھا نہ تائو اپنی اپنی شئے کی قیمتوں میںاضافہ کردیا۔ کشمیرکا ملیاری اور سبزی فروش پیچھے نہیں رہا۔ کشمیری ہاک سے لے کر مقامی سبزیوں اور بیرون کشمیر منڈیوں سے امپورٹ کی جارہی دوسری سبزیوں کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کی لہر شروع ہوئی جو لہر فی الوقت جاری ہے۔ ڈیڑھ دو ماہ تک چالیس پچاس روپے فی کلو تک قیمت والی سبزی کی پرچون قیمت اس وقت ڈیڑھ اور دو سو روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کی جارہی ہے ۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
مارکیٹ کے اس حال احوال نے ہرکس وناکس کا بھرتا بنا رکھا ہے۔ لوگوں کی اقتصادی قوت جو مختلف گھریلو اور خارجی وجوہات کے پیش نظر لاغر ہوتی جارہی تھی بازاروں کی گراں فروشی کا بوجھ اب نہیں سہہ پارہی ہے۔ لوگوں کی قوت استعداد جواب دے رہی ہے۔ یہ اللہ کا ہی معجزہ ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے ان کا گذارہ ہورہا ہے لیکن بحیثیت مجموعی صورتحال بے حد ابتر ہے اور لوگوں کی قوت خریدجواب دے رہی ہے۔
کبھی کسی زمانے میں صوبائی ایڈمنسٹریشن دکھاوے کی حد تک ہی سہی بازاروں کی چیکنگ کیا کرتی تھی۔ مختلف چیکنگ سکارڈ کبھی کسی بازار تو کبھی کسی دوسرے بازار میں نظرآیا کرتے تھے، لیکن اب یہ چیکنگ سکارڈ بھی ایسے غائب ہوچکے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ !ان نام نہاد سرکاری چیکنگ سکارڈوں کا کہیں کوئی وجود نظرہی نہیں آرہاہے۔ نہ ملاوٹ آمیز اشیاء کی نگرانی اور نہ مارکیٹ میںدستیاب مختلف اشیاء کے معیار کا کچھ پتہ!
غذائی اجناس کی قیمتوں کے حوالہ سے کشمیر کا ہر بازار آگ نہیں بلکہ آگ کے شعلے برسا رہا ہے۔ مقامی چاول کی فی کونٹل قیمت ساڑھے ۵؍ہزار سے ۶؍ہزارروپے کے درمیان فروخت کیا جارہاہے۔ گذشتہ سال بلکہ صرف تین ماہ قبل تک یہی چاول تین ہزار فی کوئنٹل کے حساب سے مارکیٹ میں دستیاب تھا لیکن قیمت میں اچانک دوگنا اضافہ واقعی حیران کن ہے ۔ یہ اضافہ کیوں ہوا اور اس کے پیچھے وجہ اور محرکات کیا ہیں کچھ قطعیت کے ساتھ کہا نہیں جاسکتا ہے البتہ حکومت نے سرکاری راشن کی فراہمی کے سکیل کے تعلق سے جو نیا طریقہ کار اختیار کرکے رائج کردیا ہے اور ہر کنبہ کو صرف ۵؍کلوچاول ماہانہ سکیل مقرر کیا اس کا براہ راست اثر مارکیٹ پر مرتب ہوا۔
غلہ داروں اور کاشت کاروں کو موقعہ ملا اور انہوںنے اس بہتی گنگا میںڈبکیاں لینے کا فیصلہ ہی نہیں کیا بلکہ عملی مظاہرہ کرکے قیمتوں میں سوگنا اضافہ کردیا۔ غلہ داروں، کاشت کاروں اور حکومت کے اقدامات نے لوگوں کو گھٹنے ٹیک دینے اور اپنی پیٹ کا دوزخ ٹھنڈا رکھنے کیلئے رینگنے پر مجبور کردیا ہے۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ مارکیٹ کی یہ گراں بازاری اور مختلف اقدامات کشمیر کے اوسط شہری کو آنے والے ہفتوں؍مہینوں میں کہاں ٹپک دے گی۔
ہرگذرتا دن لوگوں کیلئے ایک نہ ایک نئی پریشانی کا پیغام لے کر طلوع ہوجاتا ہے ۔ ان کی ان پریشانیوں کی مختلف وجوہات ہیں ،یہ پریشانی زیادہ شدت کے ساتھ محسوس نہ کی جاتی اگر لوگوں کی معاشی حالت مستحکم ہوتی لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ کچھ حالیہ برسوں کے دوران کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوںنے اوسط شہری کا روزگار ہی بری طرح سے متاثرنہیں کیا بلکہ ان کی قوت خرید بھی منفی طور سے متاثر ہوئی۔
پڑھے لکھے نوجوانوں کی بڑھتی بے روزگاری بھی کنبوں کے لئے شدید نوعیت کے مسائل اور پریشانیوں کا موجب بن رہا ہے۔ ایسے میں مارکیٹ میں تیزی نے ان پریشانیوں اور اُلجھنوں کو دوبالا کردیا ہے۔ لوگوں کی ان پریشانیوں اور تکالیف کا حل کسی حد تک ایڈمنسٹریشن کے ہاتھ میں ہے۔ کنٹرول اور ڈی کنٹرول اشوز کو کسی وقار کا مسئلہ بنائے بغیر ایڈمنسٹریشن عوام کے وسیع ترمفادات میں پہل کرے اور راحتی اقدامات کی سمت میں غلہ داروں، سٹاکسٹوں ، بیوپاریوں اور دوسرے متعلقہ افراد اور طبقوں کی لگام کسنے کی سمت میں فوری طور سے عملی اقدامات اُٹھائے۔ لوگوں کو گراں فروشوں، ناجائز مناف خوروں اور لٹیرانہ ذہنیت رکھنے والے عناصر کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا ہے۔