پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے شہر سرینگر میں ایک ناکہ کے دوران مغربی بنگال کے ایک شہری سے ایک لائسنس شدہ پستول برآمد کی ہے جو اُس شخص نے صورہ کے ایک رہائشی سے چوری کی تھی۔ معاملہ درج کیاگیا ہے، بس اطلاع اسی حد تک محدود ہے۔
ظاہر ہے اس غیر ریاستی کو پوچھ تا چھ کیلئے حراست میں لیاگیا ہے اور پولیس نے اس معاملہ کے تعلق سے جو ایف آئی آر درج کرلی ہے وہ واضح نہیں ہے کہ جو ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے اس کا تعلق کن قانونی دفعات سے ہے۔ صرف اتنا کہا گیا ہے کہ ایف آئی آر زیر نمبر۳۱؍۲۰۲۳ پولیس اسٹیشن کوٹھی باغ میںدرج کی گئی ہے ۔
بنگال کا یہ شہری حصول روزگار کے حوالہ سے واردِ کشمیر ہوا ہے تو اُس پر اعتراض نہیں لیکن جس مجرمانہ فعل کا اس نے ارتکاب کیا ہے وہ اس بات کی طرف واضح عندیہ دے رہا ہے کہ یہ شخص جرائم پیشہ ہے، اس کا تعلق مجرمانہ پیشہ وروں سے ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنی ریاست میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے بعد اُس ریاست کی امن وقانون سے وابستہ اداروں کے خوف سے بھاگ کر واردِ کشمیر ہواہو ۔ بہرحال وہ پہلو واضح نہیں ہے اور وہ پہلو اُسی وقت واضح ہوگا جب پولیس کی تحقیقات مکمل ہوگی۔لیکن یہ واضح ہے کہ لوکیش نامی یہ شخص مجرمانہ ذہنیت رکھتا ہے، یہ پیشہ ور مجرم ہے اور اگر پیشہ ور نہ ہوتا تو پستول چرانے کی حرکت ہر گز نہیں کرتا۔
ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں غیر مقامی افراد جن کا تعلق ملک کی مختلف ریاستوں سے ہے حصول روزگار کے لئے واردِ کشمیر ہورہے ہیں اور یہاں پہنچ کر کشمیر کے مختلف علاقوں کی جانب سفر کرکے اپنی توقعات اور حصول روزگار کی اُمیدوں کے حوالہ سے خیمہ زن ہوجاتے ہیں۔ یہ سلسلہ آج کانہیں بلکہ سالہاسال سے جاری ہے۔ البتہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد ایسے افراد کی آمد میں حد سے کہیںزیادہ اضافہ دیکھنے کو آرہاہے یہاں تک کہ کشمیرکے مختلف علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں غیر ریاستی اپنے کنبہ کے دوسرے افراد بشمول اہلیہ اور بچوں کے ساتھ واردِ ہورہے ہیں اور سڑکوں اور کھلے میدانوں میں خیمہ زن ہیں۔بچوں کو مقامی سکولوں میں حصول تعلیم کیلئے داخل کرالیاگیا ہے۔
ان لوگوں کی آمد اور حصول روزگار کے لئے ان کی کوششیں اور جدوجہد کے خلاف کشمیر سے ایک دبی سی آواز بھی اب تک بلند نہیں ہوئی کیونکہ یہ لوگ کشمیر میں تعمیر وترقی کی سمت میں ایک اہم کردار اداکررہے ہیںلیکن بدقسمتی سے یہ بھی اب مشاہدے میں آرہاہے کہ حصول روزگار کی بھیس میں پیشہ ور مجرم بھی واردِ کشمیرہورہے ہیں اس ذہنیت کے حامل افراد کی وقفے وقفے سے مجرمانہ سرگرمیاں منظرعام پر آتی رہی ہیں جن سرگرمیوں کا تعلق راہ زنی ، ڈاکے ، نقب ، چوری ، منشیات کا دھندہ کے ساتھ ساتھ دیگر نوعیت کی مجرمانہ سرگرمیوں اور وارداتوں سے ہے۔
کشمیر کے امن وقانون (پولیس) کی یہ بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے کردارکے حامل لوگوں پر گہری نگاہ رکھے اور جو کوئی بھی کسی بھی نوعیت کی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث پایا جائے اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی کو یقینی بنائے۔ کشمیر پولیس کی یہ قانونی ذمہ داری بھی ہے اور سماجی ذمہ داری بھی ہے۔ جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے توان کا بحیثیت مجموعی رویہ ان غیرمقامیوں کے تئیں مشفقانہ اور ہمدردانہ ہے، وہ انہیں روزگار کے مختلف شعبوں سے وابستہ کررہے ہیں اور اس طرح انہیں چھت بھی فراہم کررہے، روٹی کا بندوبست بھی یقینی بنارہے ہیں اور سب سے بڑھ کر ان کی صحت سلامتی اور بقاء کی سمت میں انہیں سکیورٹی حصار بھی فراہم کررہے ہیں۔
اس کے برعکس ملک کی مختلف ریاستوں میں رہائش پذیر کشمیری طالب علموں، روزگار کے حوالہ سے مختلف شعبوں سے وابستہ کشمیریوں کی تنگ طلبی اور ہراسانی کا نہ ختم ہونے والا اور نفرت آمیز رویہ پر مبنی سلسلہ برابر جاری ہے۔ تعلیمی ادارے ہوں یا کوئی اور ادارہ ان میںزیر تعلیم یارہائشی کشمیریوں کو ہجمومی تشدد اور منافرت کا نشانہ بنانے کاسلسلہ جاری ہے۔ یہاں تک کہ پولیس کے پاس شکایت کرنے کی پاداش میں بھی انہی کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔ ان کی شکایت کا ازالہ تو دور کی بات انہیں پولیس اسٹیشنوں میںنظربند رکھا جارہا ہے اور ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائے جارہے ہیں۔
تازہ ترین واقعہ اُترپردیش کے نوڈیاعلاقے میں زیر تعلیم قانونی طلبہ کے ایک گروپ کے خلاف پولیس کی یکطرفہ اور تعصب پر مبنی کارروائی ہے۔ یہ طلبہ ایمٹی یونیورسٹی کے شعبہ قانون سے وابستہ ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ انہیں کچھ مقامی لوگوںنے ہراساں کیا، جس پر وہ شکایت لے کر پولیس کے پاس پہنچ گئے لیکن حملہ آروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے پولیس نے انہی کے خلاف کارروائی کی اور حراست میں لیا۔ اس معاملے کو لے کر جموں وکشمیر سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے اُتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور مقامی حلقہ کے ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر مہیش شرما سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔
اس نوعیت کے معاملات جو آئے روز وقوع پذیر ہورہے ہیں باعث تشویش تو ہیں لیکن ایسے معاملات جن کا تعلق کشمیریوں کے خلاف ہجومی تشدد، تعصب سے عبارت رویہ، ماردھاڑ، بلاجواز پولیس کے ہاتھوں پکڑ دھکڑ اور اختراعات کی بُنیاد پر ایف آئی آر کے اندراجات مقامی سطح پر منفی ردعمل اور تشویشات کا مستقل موجب بن رہا ہے۔
بیرون جموں وکشمیر کچھ ریاستی پولیس کا اس نوعیت کا رویہ اور طرزعمل مناسب نہیں اور نہ ہی انصاف کی کسوٹی پر اُترتا محسوس ہورہا ہے بلکہ ایسے رویے منفیات اور تشویشات کا ہی باعث بن رہے ہیں۔ یہ رویہ اور طرزعمل وزیراعظم نریندرمودی کی سب کا ساتھ کے منترا کے خلاف ہے اور ایسی ضد ہے جس کو چند ریاستوں کی پولیس اپنا کر مرکز کے خلاف مخالفت اور مخالفانہ جذبات کو جنم دینے میں اہم کردار اداکررہی ہیں۔
لیفٹیننٹ گورنر جموںوکشمیر منوج سنہا سے نہ صرف گرفتار بچوں کے لواحقین بلکہ بحیثیت مجموعی کشمیر کی سول سوسائٹی اور حساس شہری یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بیرون جموںوکشمیر بھی زیر تعلیم بچوں کی صحت سلامتی اور بقاء کا تحفظ نہ صرف یقینی بنائیں بلکہ یہ بچے چاہئے حصول تعلیم کے تعلق سے بیرونی اداروں میں زیر تعلیم وتربیت ہیں یا حصول روزگار کے حوالہ سے رہائشی ہیں کے مجروح اعتماد کی بحالی کیلئے ہر ممکن اور ہر سطح پر مناسب اقدامات اُٹھائیں گئے۔