نئی دہلی// عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ راگھو چڈھا نے جمعرات کو کہا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ان کی شبیہ کو خراب کرنے کے لیے ان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کر رہی ہے ۔
مسٹر چڈھا نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پورے ملک نے دیکھا ہے کہ کس طرح وزیر اعظم نریندر مودی کی آمرانہ حکومت نے دہلی حکومت کا گلا گھونٹنے کے لیے غیر آئینی بل پاس کیا ہے ۔ مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کا اتنے سے بھی دل نہیں بھرا ہے ۔ اب مودی سرکار نے ایک نئی روایت شروع کی ہے کہ جو بھی اس کے خلاف بولے گا، وہ اس کی رکنیت منسوخ کر دے گی، اسے معطل کر دے گی یا ایف آئی آر درج کر دے گی۔ مودی حکومت کو جمہوریت کا ڈرامہ کرنے کے بجائے ملک میں آمریت کا اعلان کردینا چاہیے ۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی افواہ کمپنی بی جے پی کے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا کہ دستخط غلط ہوگیا۔ امت شاہ ملک کے دوسرے نمبر کے وزیر ہیں۔ ان کو ایوان کی کارروائی کے بارے میں عمومی علم ہونا چاہیے ۔ سلیکشن کمیٹی میں کسی بھی رکن کے ذریعہ کسی بھی رکن کا نام تجویز کیا جاسکتا ہے اور اس کے دستخط کی ضرورت نہیں ہے ۔ دراصل مودی حکومت کا واحد مقصد راہل گاندھی کی طرح راگھو چڈھا کی رکنیت بھی ختم کرنی ہے ۔ لیکن ہم لڑنا اور جیتنا جانتے ہیں۔ اگر غلط ہتھکنڈے اپناتے ہوئے راگھو چڈھا کی رکنیت ختم کی گئی تو وہ دوبارہ منتخب ہو کر آجائیں گے ۔ لیکن امت شاہ جی کو جھوٹ اور افواہ نہیں پھیلانی چاہیے ۔
مسٹر چڈھا نے کہا کہ بی جے پی کا بنیادی منتر ایک جھوٹ کو ہزار بار بولو تاکہ وہ سچ میں تبدیل ہوجائے ۔ اس منتر کے تحت بی جے پی نے میرے خلاف پروپیگنڈہ شروع کر دیا ہے ۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب بھی استحقاق کمیٹی کسی رکن کے خلاف کوئی کارروائی شروع کرتی ہے تو وہ رکن اس پر کوئی عوامی بیان نہیں دیتا ہے ۔ لیکن مجھے مجبوراً بی جے پی کے جھوٹ کو بے نقاب کرنے کے لیے ملک کے سامنے آنا پڑا۔ راگھو چڈھا نے رول بک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رول بک کے مطابق راجیہ سبھا چلتی ہے ۔ رول بک میں لکھا ہے کہ کسی بھی سلیکشن کمیٹی کی تشکیل کے لیے کوئی بھی ایم پی نام تجویز کر سکتا ہے اور جس ممبر کا نام تجویز کیا جاتا ہے ، اس کے دستخط اور تحریری رضامندی کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ۔ رول بک میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہے کہ سلیکشن کمیٹی میں تجویز کردہ کسی رکن کا نام دینے کے لئے تحریری رضامندی یا دستخط چاہیے ۔ اس کے باوجود بی جے پی کی طرف سے غلط پروپیگنڈہ پھیلایا گیا کہ دستخط غلط تھے ۔
مسٹر چڈھا نے کہا کہ ہمارے پاس بی جے پی کی لاعلمی کا کوئی علاج نہیں ہے لیکن عمل یہ ہے کہ جب بھی کوئی متنازعہ بل ایوان میں آتا ہے تو کمیٹی بنانے کے عمل کو بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ ابھی ووٹنگ نہ ہو، بلکہ اس پرمزید بحث کی جائے ، بل میں مزید کیا تبدیلیاں کی جائیں، وہ بتایا جائے ۔ اس کے لیے یہ سلیکشن کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے ۔ اس کمیٹی میں کچھ نام تجویز کیے جاتے ہیں اور جس ممبرکو اس کمیٹی میں نہیں رہنا ہے ، وہ اپنا نام واپس لے لیتا ہے ۔ یہ صرف ایک تجویز ہے ۔ کمیٹی میں کسی رکن کو زبردستی شامل نہیں کیا گیا ہے ۔
استحقاق کمیٹی کے پارلیمانی بلیٹن کا حوالہ دیتے ہوئے ، انہوں نے کہا، "میرے خلاف جو شکایت آئی ہے ، اسے غور کے لیے استحقاق کمیٹی کو بھیج دیا گیا ہے ۔ پارلیمانی بلیٹن میں کہیں بھی جعلی، جعلسازی، دستخط جیسے الفاظ استعمال نہیں ہوئے ہیں۔ بس اسے چیک کرنے کے لئے کہاگیا ہے ۔ پارلیمانی بلیٹن میں کم از کم دستخط کا لفظ استعمال کیاگیا ہوتا۔ جب دستخط ہی نہیں ہے تو کہاں سے آئیں گے ؟ بی جے پی کے جھوٹ کا مقابلہ کرنا اتنا آسان نہیں ہے ۔ اس لیے ہمیں میڈیا کے ذریعے ملک کے سامنے آکر اپنی بات رکھنی پڑی ہے ۔