پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون سے ایک نیوز پورٹل نے سوال کیا کہ کشمیر کی موجودہ پُرآشوب حالات کے تناظرمیں کشمیرنشین سیاسی جماعتیں آپس میں کیوں اتحاد نہیں کرتی تاکہ آنے والے وقتوں میں جب بھی الیکشن ہو جائیں تو متحدہ منڈیٹ حاصل ہوسکے کے جواب میں انہوںنے کہا کہ اگر سیاسی جماعتوں کے درمیان اتحاد ہو تا بھی ہے تو بھی ووٹ منتقل نہیں ہوتا ہے اور نہ ہوگا، سوال کرنے والا جواب سن کر خاموش تو ہوگیا لیکن مجھ جیسا صحافی یہ سوال ضرور کرتا کہ اگر ووٹ بینک تبدیل یا منتقل نہیں ہوتا یا نہ ہوگا تو پھر کشمیر نشین جتنے بھی سیاسی قبیلے یا جرگے ہیں وہ پھر ایک دوسرے کی کردار کشی ، طعنہ زنی ، الزامات اور عوام کے ساتھ وقت وقت پر چھل کرنے کے دعوئوں کے ساتھ اپنی سیاسی سرگرمیوں یا سیاسی دکانیں سجا کر کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں؟
ووٹ بینک اگر مستقل ہے تو ظاہر ہے ہر پارٹی کے پاس جو کچھ بھی ووٹ کی صورت میں دستیاب ہے یا توقع ہے وہ کسی بھی پارٹی کو نہ دو تہائی اکثریٹ تفویض کرسکتا ہے اور نہ اقتدار……؟پھر ان سبھی پارٹیوں کا مستقبل کیا ہے؟ ہر پارٹی کا اپنا ایک مخصوص بیانیہ ، نظریہ اور موقف ہے ، جو ایک دوسرے کے بیانیہ ، نظریہ اور موقف کے ساتھ متصادم ہے ۔ یہ تینوں بحیثیت مجموعی عوام کی اکثریتی سوچ، نظریہ اور چاہت کے ساتھ ذرہ بھر بھی مطابقت نہیں رکھتے، عوام سمجھوتہ کرنے اور وقتی مصلحتوں کے پیش نظر خود کو ذرا خم کرتے اگر ان سیاسی قبیلوں کا ماضی اور ماضی میں ادا کردار اور رول عوام کی توقعات، خدمات اور خواہشات کی تکمیل ، احترام اور حصولیابی میں ادا ہوا ہوتا۔
ان کرداروں اور رول میں سودا بازی ، سودا گردی، معذرت خواہی اور تول مول کے سوا کچھ بھی تو ریکارڈ پر دستیاب نہیں اور نہ ہی بادی النظرمیں کہیں کسی سمت سے نظرآرہاہے۔ یہ سارے سیاستدان ماضی کے حوالہ سے کانگریس ، نیشنل کانفرنس اور چند دوسری چھوٹی قومی دھارے یا علیحدگی پسند پارٹیوں سے ہوکر آئے ہیں اور فی الوقت نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی ، پیپلز کانفرنس، اپنی پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں جبکہ چند ایک اخوان کے قبیلے سے بھی وابستہ رہے ہیں۔
ان سب کو معلوم ہے کہ اقتدار سے وابستہ رہ کر یا اقتدار سے باہر ان سے کوئی ایسا کارنامہ یا رول منسوب نہیں جس پر وہ خود بھی فخر کرسکیں اور عوام بھی اپنی جگہ مطمئن ہو کر ان فخریہ کارناموں پر سینہ تان کر ان کی پشت پر سیسہ پلائی دیوار بن جائیں ، لیکن اس کے باوجود یہ حضرات خود کو کشمیر کا مسیحا کے طور پیش کرنے پر بضد ہیں جو وہ اصل میں نہیں ہیں۔
ہر پارٹی اور پارٹی سے وابستہ سیاست دانوں کے انفرادی یا پارٹی سطح پر اداکردار اور رول کا محض سرسری تجزیہ کیاجاتا ہے تو کشمیر کے اس سیاسی حمام سے وابستہ سبھی کردار اور چہرے ننگے ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ کانگریس کی بات کریں تو بحیثیت مرکز میں برسراقتدار جماعت اور پھر جموں وکشمیرمیں فراڈ الیکشن کے ذریعے میڈان دہلی کٹ پتلی سرکاروں کو اپنا مہرہ کے طور استعمال کرکے جموں وکشمیر باالخصوص کشمیرکے مفادات اور حقوق کے ساتھ جو حشر کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔
بخشی غلام محمدمرحوم کی تاج پوشی کی گئی تواس کے خاندان اور ’’ گوگہ بریگیڈ‘‘ نے کورپشن، لوٹ، اراضیوں اور جائیدادوں پر ناجائز قبضوں ، بدعنوانیوں، غنڈہ گردی، اغوا ، عصمت کاری، ازیت رسانی ، مارپیٹ ، دھونس دبائو، پکڑ دھکڑ ، جھوٹے مقدمات کا گیارہ سالہ قہر وغضب ریکارڈ پر درج ہے ۔
مرحوم غلام محمدصادق کے بارے میں عام تاثر یہی رہا گوکہ وہ کورپٹ نہیں تھا لیکن اپنی نرم روی کی پالیسی کی آڑمیں دہلی کی سرپرستی اور آشیرواد کے ساتھ آئین کی دھجیاں بکھیر کے رکھدی اور یہی وہ دور تھا جب کشمیر کی منفرد حیثیت اور تشخص کے ساتھ ساتھ آئینی تحفظات پر پے درپے حملے کئے جاتے رہے۔ سید میر قاسم کے مختصر دور کے بعد نیشنل کانفرنس نے اپنی ۲۲؍سالہ سیاسی آورہ گردی کے بعد اقتدار حاصل کیا تو آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی کی گھڑی کی سوئیوں کو پیچھے واپس نہیں گھمایا جاسکتا جبکہ اس دوران جہلم اور گنگا کا بہت سارا پانی بہہ کر سمند رکی نذر ہوچکا ہے ، کے آگے سرنڈر کرکے اقتدار کوہی نہ صرف ترجیح دی بلکہ آنے والی جانشین سرکاریں کانگریس کی ’بی‘ ٹیم بن کر رہے سہے اختیارات بھی سرنڈر کرتی رہی۔
کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ کشمیرکا حال اپنے اُس ماضی سے مختلف نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اُس دور کے کردار کوئی اور تھے اور آج کی تاریخ کے کردار کچھ اور ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج کے یہ کردار ، جن میں اکثریت کا تعلق اُسی ماضی سے رہا ہے، اس بات کا احساس نہیں کرتے کہ ان کے پیشرو سیاسی قبیلوں کے سرداروں نے جو رول اداکیا ہے اُسی سے مشابہہ رول اداکرکے کشمیر کی تاریخ میںکوئی نیا باب نہیں بلکہ اُسی باب کی تلاوت کے راستے پرگامزن ہیں۔
بے شک سیاسی اور آئینی تحفظات کے حوالہ سے کچھ اہم اشوز ہیں جن کا حصول ملک کی عدلیہ کی وساطت سے لڑکر ممکن نہیں اور اگر باالفرض مان بھی لیں کہ عدلیہ انصاف کے تمام تر تقاضوں اور لوازمات کی تکمیل کے بعد انصاف کرے گی لیکن اس کے لئے برس ہا برس درکار ہوں گے۔ سیاسی اور آئینی تحفظات کے تعلق سے معاملات مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہی طے کئے جاسکتے ہیں نہ کہ اپوزیشن کی گود میں بیٹھ کر یا اپوزیشن کو اپنی گود میں بٹھا کر حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مرکز میں ایک مضبوط سرکار اقتدارمیں ہے ، پارلیمنٹ میںاس کی بھاری اکثریت ہے، اصولی اور سیاسی حکمت عملی اور دانائی بینائی کا تو تقاضہ یہ ہے کہ مرکزی سرکار کے ساتھ بیٹھ کر معاملات کا حل تلاش کیاجائے۔
اس حوالہ سے ماضی اگر کوئی تاریخ ہے اور حقیقت ہے تو کیاماضی میں نیشنل کانفرنس این ڈی اے کا حصہ نہیں تھی، کیا این سی کرگل ہل کونسل اور جموں میونسپلٹی میں بی جے پی کی ساتھی نہیں رہی ہے، کیا سجاد غنی لون پی ڈی پی دور حکومت میںبی جے پی کے کوٹہ کے تحت کابینہ کا حصہ نہیں تھے، کیا خود مفتی مرحوم اور ان کی بیٹی محبوبہ جی بی جے پی کے ساتھ شریک اقتدار نہیں تھی، کیا سید الطاف بخاری جب ایل کے ایڈوانی نائب وزیر اعظم تھے کے قریبی نہیں تھے، یہ حقیقتیں ناقابل تردید ہیں لیکن اس ماضی کے باوجود مرکز میں برسراقتدار بی جے پی کے ساتھ جموں وکشمیر کے معاملات طے کرنے اور عوام کی ترقی اور قیام امن کو یقینی بنانے کیلئے یہ سارے سیاست کار دامن کیوں کترا رہے ہیں، اس کے برعکس ایک دوسرے کو بی جے پی کی، ’بی اور سی ‘ ٹیم ہونے کا طعنہ دیا جارہاہے۔ یہ سیاست نہیں بلکہ ان سیاستدانوں کی ریاکاری ہے، اس ریاکاری کے تناظرمیںیہ حضرات کیوں توقع رکھتے ہیں کہ کشمیر کا منڈیٹ ان کی جھولیوں میں ٹپک کر انہیں اقتدار تک پہنچائے گا۔