نیجر//
’’امریکہ نے اپنے شہریوں کو بحران زدہ نیجر سے نکالنے کا فی الحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔‘‘یہ بات وائٹ ہاؤس نے منگل کے روز العربیہ کو بتائی ہے۔ تاہم قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ ” ہر ایک گھنٹے بعد” تازہ صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
جان کربی نے کہا کہ امریکہ فرانس اور دیگر یورپی ممالک کی جانب سے انخلاء کی کوششوں سے آگاہ ہے لیکن نوٹ کیا کہ "ہمیں امریکی شہریوں یا ہماری تنصیبات کے لیے براہِ راست خطرات کے کوئی اشارے نہیں ملے ہیں۔”
کربی نے العربیہ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا ’’کہ اس طرح، ہم نے نیجر میں اس وقت اپنی موجودگی کے حوالے سے اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کی ہے لیکن میں دوبارہ کہوں گا کہ ہم حقیقتاً ہر گھنٹے اس کی نگرانی کر رہے ہیں۔ اور اگر اس صورتِ حال میں کوئی تبدیلی آتی ہے تو ہم مزید کچھ کہہ سکیں گے۔”
انہوں نے نیجر میں امریکیوں کو تاکید کی کہ وہ چوکس رہیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ ملک کی صورتحال سے متعلق تازہ اطلاعات اور الرٹس پر نظر رکھتے ہوئے کسی بھی غیر ضروری نقل و حرکت کو محدود رکھیں۔
خشکی سے محصور افریقی ملک نیجر میں تقریباً 1,000امریکی فوجی تعینات ہیں جہاں وہ علاقائی شورش سے نمٹنے میں معزول صدر محمد بازوم کی مدد کر رہے تھے۔
کربی نے کہا کہ نیجر میں امریکی فوج یورپی ہوائی نقل و حمل میں حصہ نہیں لے رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ "دیگر ممالک کی طرف سے انخلاء کی کوششوں میں مدد کے لیے ان (ہوائی نقل وحمل) کو کسی بھی طرح استعمال کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے” اور "کسی بھی اضافی فورسز کو پہلے سے یا اس کے آس پاس تعینات کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔”
اگر ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑی تو ہم کریں گے۔ ہم وہاں (یونہی) نہیں ہیں۔”انہوں نے کہا۔
کربی نے یہ بھی کہا کہ نیجر کے لیے امریکی حمایت میں فی الحال کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن یہ اس بات پر منحصر ہے کہ معاملات آگے کیسے بڑھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "ہم نے کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے لیکن اپنے آگے بڑھتے ہوئے نظام کا جائزہ لینے کے لیے ہم یقیناً ایک سخت عمل اختیار کریں گے۔ ہم نے نیجر کے رہنماؤں کے ساتھ بالکل واضح بات کرتے رہے ہیں کہ امریکی حمایت کو ہونے والے نقصان کے کیا ممکنہ نتائج ہوں گے۔”
گذشتہ ہفتے سابق فرانسیسی کالونی کے فوجی افسران نے بازوم حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا جس سے پورے خطے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی جہاں نیجر کے مغربی اتحادیوں کو روس پر اثر ورسوخ کھو دینے کا اندیشہ ہے۔
تاہم کربی نے العربیہ کو بتایا کہ امریکہ نے نیجر کے واقعات میں روسی مداخلت نہیں دیکھی۔
انہوں نے کہا، "میں سمجھتا ہوں بالکل واضح طور پر… ہمارے خیال میں اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ روس اس میں ملوث ہے [یا یہ کہ] روس کسی بھی طرح سے مادی یا مؤثر طور پر اس کی حمایت کر رہا ہے۔”
کربی نے مزید کہا کہ روس اس پیش رفت کا "کریڈٹ لینا” تو ضرور پسند کرے گا لیکن ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ وہ اس کے ذمہ دار ہیں۔ لہذٰا، ہم یہاں کسی بڑے روسی اثرورسوخ کے بارے میں غیر ضروری طور پر فکر مند نہیں ہیں۔