کراچی//
وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے 2019ء کے آئین کی جگہ 2014ء آئین کی بحالی کے لیے پہلے نجم عزیز سیٹھی کی مینجمنٹ کمیٹی کو منتخب کیا لیکن انتخابات کے عمل سے قبل بین الصوبائی رابطے کی وزارت کی خواہش پر چوہدری ذکاء اشرف کی مینجمنٹ کمیٹی نے ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔
اسی دوران بابر اعظم کی قیادت میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے سعود شکیل، آغا سلمان عبداللّٰہ شفیق اور نعمان علی کی غیر معمولی پرفارمنس کے ساتھ سری لنکا کو ہوم گراؤنڈ پر دیوار سے لگاتے ہوئے، آئی سی سی ٹیسٹ چیمپئین شپ کے دونوں ٹیسٹ با آسانی اپنے نام کر لیے ہیں۔
سری لنکا روانگی سے قبل کپتان بابر اعظم نے نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں صحافی کے بورڈ میں تبدیلیوں سے متعلق سوال پر برجستہ جواب دیا تھا، ہمیں بورڈ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
البتہ اب اطلاعات ہیں کہ سری لنکا میں دوران ٹیسٹ سیریز ڈریسنگ روم اور ٹیم ہوٹل میں بورڈ میں مستقبل میں متوقع تبدیلیوں پر ہی تبادلہ خیال ہوتا رہا۔
قومی ٹیم کی ٹیسٹ سیریز میں 0-2 کی فتح کے باوجود انگلینڈ سے آن لائن کوچنگ کرنے والے ڈائریکٹر کرکٹ مکی آرتھر اور کوچ بریڈ برن اپنے مستقبل کو لے کر فکر میں مبتلا ہیں کہ آیا وہ ایشیا کپ، آئی سی سی ورلڈ کپ اور دورہ آسڑیلیا میں ٹیم کے ساتھ ہوں گے بھی یا نہیں ؟
قومی ٹیم کے میڈیا مینجر افتخار ناگی اور مینجر ریحان الحق بھی اسی قسم کی صورتحال سے دوچار ہیں کہ کہیں قومی ٹیم کے ساتھ یہ ان کا آخری دورہ نہ ثابت ہو۔
دوسری جانب قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم جنہوں نے دورہ سری لنکا کے دو ٹیسٹ کی تین اننگز میں محض 76 رنز بنائے، اس اعتبار سے تو مطمئن ہیں کہ ایک سال بعد قومی ٹیم ان کی قیادت میں ٹیسٹ میچ اور سیریز جیتنے میں کامیاب رہی لیکن ان کے لیے تشویش کا سبب یہ بات ہے کہ مستقبل قریب میں اگر ٹیم مینجمنٹ اور سلیکشن کمیٹی میں تبدیلیاں سامنے آتی ہیں تو وہ کس حد تک اپنی بات اور مرضی کے ساتھ چیزوں کو لے کر چلنے میں کامیاب رہیں گے۔
اس کے ساتھ ان کے لیے سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ کرکٹ بورڈ کے سربراہ چوہدری ذکاء اشرف نے اگر ماضی میں نظر انداز کرکٹرز کے لیے قومی ٹیم کے دروازے کھولے تو کیا ان کی اتھارٹی تو چیلنج نہیں ہوگی؟