پارلیمنٹ مسائل اور معاملات کو پیش کرنے، ان پر بحث کرکے ان کا حل تلاش کرنے کے حوالہ سے ایک ایسا ایوان ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ۔ یہ وہ ایوان ہے جس کے سرپرآئین سایہ فگن بھی ہے اور آئین کا تحفظ اس حوالہ سے حاصل ہے کہ کوئی بھی رکن ایوان اپنے خطے اور حلقے کے مسائل، معاملات اور مطالبات کو پیش کرتے وقت زمینی حقائق کے مطابق دلائل پیش کرسکے۔
عوامی نمائندگان سے متعلق ایکٹ میں کچھ معاملات کے حوالہ سے وضاحت موجود ہے، لیکن یہ ایکٹ کسی بھی منتخبہ رکن کو اس بات کی اجازت نہیں دے رہاہے کہ وہ اپنے حلقے کے رائے دہندگان کو درپیش معاملات کو حاشیہ پر رکھ کر اپنی وابستگی کی بُنیاد پر اپنی پارٹی کے مقاصد اور اہداف کو ترجیح دے یا ہنگامہ آرائی کاراستہ اختیا رکرکے ایوان سے واک آوٹ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتار ہے۔
حالیہ چند برسوں کے دوران یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ پارلیمنٹ کے تقریباً دونوں ایوانوں کے اجلاس اپوزیشن اور حزب اقتدار کے درمیان پارٹیوں کے اہداف اور ایجنڈا سے وابستہ مفادات کے تحفظ کے تعلق سے نہ صرف تعطل کا شکار رہے بلکہ ہنگامہ آرائیوں اور واک آوٹ کے بھی نذر ہوتے رہے۔ اس دوران اب تک کتنے ارب اور اوقات کا اتلاف ہوا اب غالباً اس کی گنتی بھی نہیں رہی۔
ہنگامہ آرائیوں اور واک آوٹ کا راستہ اختیار کرنے کیلئے صرف اپوزیشن ذمہ دارنہیںبلکہ اگر ایک فریق ہٹ دھرمی پر مصر ہے تو دوسرے کو ضد اور آہنکار پر فخر ہے اور سینہ تان بھی رہا ہے۔ کوئی ایک بھی فریق لوگوں اور ملک کے وسیع تر مفادات میں نہ لچک دکھا رہا ہے اور نہ معقولیت کا ہی راستہ اختیار کرتے دکھائی دے رہاہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دونوں فریق مائی وے یا ہائی وے کے نظریہ، اپروچ اور خول سے باہر قدم رکھنے کیلئے نہ آمادہ ہے اور نہ ہی اس حوالہ سے کسی طرح کی ہی پہل نظرآرہی ہے۔بحیثیت مجموعی دیکھاجائے تو موجودہ پارلیمنٹ کا تقریباً ۹۰ فیصد وقت فریقین کی میں نہ مانو، ضد اور ہٹ دھرمی کی نذرہوچکا ہے۔
اس مدت کے دوران بے شک کچھ مسودہ بل پاس بھی ہوئے، بجٹ تخمینہ جات کو بھی منظور ی ملی، کچھ قوانین میں ترمیمی مسودوں کو بھی منظور ی ملی لیکن اس سارے کا المیہ یہ ہے کہ کسی بھی معاملے پرکوئی بحث نہیں ہوئی، کسی بھی معاملے کو عوامی خواہشات اور عوامی ضرورتوں سے ہم آہنگ نہیںکیاجاسکا، بس یکطرفہ ٹریفک کا نہ ختم ہونے والاسلسلہ جاری رہا۔
کچھ مخصوص فکر کے سیاسی حلقے پارلیمنٹ کے اس ’حشر‘ سے بے پروا اور بے فکر ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے ایوان کو سکور پوائنٹ کرنے اور اپنی اپنی نظریاتی اور سیاسی بالادستی کا دبدبہ بنائے رکھنے کیلئے استعمال نہ کیاجائے تو پھر اور کہاں، یہ سوچ منفی اور سیاسی جاہلیت اور سب سے بڑھ کر آمرانہ ذہنیت کا عکاس ہے۔ لیکن آئین کی بالادستی اور جمہوری سیٹ اپ پر غیر متزلزل یقین او ر اعتماد رکھنے والے حلقے پارلیمنٹ کی اس ’حشر‘ سے لرزاں ہیں اور محسوس کررہے ہیں کہ یہ سلسلہ، جو غیر آئینی ، غیر جمہوری، سیاسی دبدبہ اور نظریاتی بالادستی سے عبارت ہے گر جاری رہا اور یوں ہی اس غیر مہذبانہ اور غیر شائستہ طریقہ کار کو بطور نظریہ ضرورت کے بروئے کار لایا جاتا رہا تو وہ دن دورنہیں جب ملک کا آئین محض کاغذ کا ایک ردی کا ٹکڑا اور جمہوریت کی دیوی اپنوں کے ہاتھ شرمسار ہوکر کسی اور سمت کی طرف پرواز کر جائیگی۔
آئین کا احترام کرنے والوں اور جمہوری طرز نظام پر غیر متزلزل یقین رکھنے والے سماجی حلقوں کیلئے یہ منظرنامہ تکلیف دہ بلکہ ہر اعتبار سے روح فرسا محسوس ہورہاہے۔ وہ اپنے محسوسات کو مختلف طریقوں سے زبان تو دے رہے ہیں لیکن کوئی بھی فریق ان کی نہ سُن رہا ہے اور نہ ان کے محسوسات کا احترام بجا لانے کیلئے تیار ہے۔ آئین اور جمہوری طرز نظام نے پارلیمنٹ کی کارروائیوں کو بہ احسن طریقہ چلانے اور اس پر کاربند رہنے کا طریقہ کار واضح طور سے بنا رکھا ہے جبکہ گورننس کے تعلق سے بھی طریقہ کا ر طے ہے۔ لیکن اس نقش راہ کا اب ملک سے خریدار بتدریج ہٹتے جارہے ہیں۔
یہ اُبھرتا مخصوص منظرنامہ کچھ سماجی حلقوں کو نظر بھی آرہاہے اور وہ محسوس بھی کررہے ہیں ، وہ اس بات کو بھی مان کر چلتے ہیں کہ یہ منظرنامہ تقویت اختیار کرتا گیا تو حالات ہاتھ سے نکل جائیں گے لیکن یہ منظرنامہ محسوس اور دیکھنے والا طبقہ اقلیت میں ہے اور وہ خود کو بے بس محسوس کررہے ہیں۔
جموںوکشمیر کے دونوں خطوں کو بھی پارلیمنٹ میںنمائندگی حاصل ہے۔ کشمیرکے تین حلقوں کو بھی پارلیمنٹ میںنمائندگی کا شرف حاصل ہے ۔ لیکن کشمیر سے منتخب تین نمائندوں کی اب تک کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ تین ارکان میں سے دوکے نام کبھی کبھار کچھ ایک غیر اہم معاملات کے حوالہ سے سننے اور پڑھنے کو تو ملتے ہیں لیکن ایک رکن سر ے سے ہی غائب ہے۔ معلوم نہیں کہ وہ صاحب کہاں ہیں اور کیا کررہے ہیں۔ اس کا چہرہ پارٹی کے اجلاسوں میں بھی نظرنہیںآرہاہے۔
جو دو ارکان کسی حد تک سرگرم ہیں ان میں سے ایک اپوزیش اتحاد کو گود میں اُٹھائے ملک کے طول وارض میں گھوم رہا ہے اور لوگوں کو کئی ایک معاملات ، آئین کے تقدس اور جمہوریت کے بقاء اور تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے درس دیتا نظرآرہاہے جبکہ دوسرا اپنی مایوس کن کارکردگی کے ریکارڈ مرتب کرنے میں لگا ہوا ہے۔ سٹیٹ کو جن سنگین نوعیت کے مسائل او رمعاملات کا سامنا ہے اور جو اپنے اپنے نتائج کے حوالوں سے دوررس اہمیت کے حامل ہیں ان ممبران پارلیمنٹ کیلئے کوئی اہمیت او رحساسیت نہیں رکھتے۔
اپنی اس مخصوص مایوس کن کارکردگی کی بنا ء پر کیا یہ ممبران اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ آنے والے پارلیمانی انتخابات میں اگرانہیں منڈیٹ ملا یا موقعہ ملا الیکشن میدان میں اُترنے کا تو وہ کامیاب ہوجائیں گے اور لوگ ان کی پانچ سالہ مایوس کن کارکردگی کے ریکارڈ کو نظرانداز کرکے ایک بار پھر اپنا منڈیٹ ان کی جھولی میں ڈالیں گے۔