بچپن میں ہم اپنے بزرگوں سے سنا کرتے تھے کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ جب غسل دینے کیلئے غسال کابل سے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں روزمرہ کا کام کاج اور خدمات کی انجام آوری کیلئے ہندوستان کے مختلف علاقوں سے فوج درفوج ورکر کارکن اور کام گار وارد کشمیر ہوا کریں گے۔
بزرگوں کی یہ پیش گوئیاں کشمیرکی موجودہ زمینی صورتحال کے تناظرمیں نہ صرف سچ ثابت ہورہی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ کشمیر کی سڑکیں، گلی کوچے، کھیت کھلیان،دکانداری ، کاروبار، تعمیرات فصلوں کی بوائی، وغیرہ شعبوں پر غیر کشمیری مقامی ہاتھوں کو حاشیہ پر رکھ کر انہیں اب غیر متعلقہ کرتے جارہے ہیں۔ وہ کون سا شعبہ نہیں ہے کہ جہاں غیر مقامی لوگ کمان کرتے نظرنہیں آرہے ہیں۔
اس اُبھرتے منظرنامے کی بُنیادی وجہ کیا ہے وہ تحقیق یا غور طلب نہیں بلکہ ہر ایک پر بُنیادی وجوہات واضح ہیں۔ کشمیرکے ورکر، ہنرمند، کاریگر،غرض ہر ایک شعبے سے وابستہ فرد کی نفسیات بھی تیزی سے تبدیل ہوتی جارہی ہے اور مزاج بھی بدلتا جارہاہے۔ کام اس کی ترجیحات میں اب شامل نہیں البتہ بے محنت کی دولت کا وہ بے شک پجاری ہے۔
کھانے پینے اور زندگی کے تعلق سے روزمرہ کی اپنی ضروریات کے حوالہ سے کشمیرکے ہر فرد اور ہرگھرانے کی اپنی ترجیحات اور پسند رہی ہے لیکن ان ترجیحات او رپسند کی بُنیاد کشمیرکی اپنی منفرد روایات، تہذیب، عقیدہ اور نظریہ پرہی رہی ہے۔ لیکن اب بدقسمتی سے یہ ترجیحات اور عقیدہ پر مبنی نظریہ میں بھی بدلائوآرہاہے۔ اب حلال وحرام کی بہت کم تمیز باقی رہی ہے۔ ریڈی میڈ پیکٹ فوڈ میں موجود اشیاء حلا ل ہے یا جھٹکہ یا حرام اس کو زیادہ اہمیت نہیں دی جارہی ہے، چربی سے عبارت خوردنی اشیاء کس حلال یا حرام جانور کی ہے اس کو بھی زیادہ اہمیت نہیں دی جارہی ہے ،بس ترجیح شکم پری، پیٹ پوجا، بغیر محنت کے پکانے کا جھنجھٹ اور درد سری سے بچتے بچاتے کھانے پینے کی اشیاء کا حصول اب قدرے ترجیحات میں شامل ہے ۔
ابھی ۲۱؍ جون کو فوڈ سیفٹی محکمہ کشمیر نے ۱۰؍ کوئنٹل ڈرسیڈ چکن کا سٹاک ضبط کرکے تلف کرلیا جس کے بارے میں متعلقہ محکمہ کا کہنا تھا کہ یہ ڈریسڈ چکن بیرون جموںوکشمیر سے منگائی گئی تھی لیکن اس سٹاک کو مروجہ فوڈ سیفٹی ایکٹ کی خلاف ورزی کی پاداش میں ضبط کیاگیا۔ اس سارے سٹاک کو حفظان صحت کے برعکس ضرر رسان پایاگیا تھا۔ یہ سٹاک پارمپورہ میںواقع ایو انٹر پرائزز نامی کاروباری نے بیرون ریاست سے امپورٹ کیاتھا۔ کاروباری ادارہ کو بھی سربہ مہر کردیاگیا۔
متعلقہ محکمہ کی طرف سے اس سنسنی خیز کارروائی کے تناظرمیں لوگوں کو مشورہ دیاگیا ہے کہ وہ ہرممکن احتیاط سے کام لیا کریں کیونکہ خام گوشت، مرغ اور مچھلی کو ہائی رسک فوڈ زمرے میں شمار کیاجارہاہے۔ان اشیا کو سٹاک میں رکھنے کیلئے زیادہ دنوں کے لئے کم سے کم منفی ۱۸؍ ڈگری سنٹی گریڈ اور کم ایام کیلئے کم سے کم صفر عشاریہ ۵؍ڈگری سنٹی گریڈ صلاحیت کا کولڈ اسٹوریج سہولیات کا ہونا قانونی اعتبار سے لازمی ہے۔ ان احتیاط کو برتا نہ گیا تو یہ اشیا ہلاکت خیز ثابت ہوسکتی ہے۔
کشمیر کے ہر گلی کوچے اور ہر بازار میں پولٹری پروڈکٹ دستیاب ہے۔ موقع پر چکن کو ذبح کرکے فروخت کیا جارہا ہے اور لوگوں کو اس حوالہ سے کوئی شکایت نہیں۔ لیکن اس مخصوص تناظرمیں مذکورہ کاروباری کو بیرون ریاست سے لاکھوں روپے مالیت کی ڈریسڈ چکن کشمیر لانے کی مجبوری کیوں ہوئی، یہ واقعی غور طلب معاملہ ہے۔ پھر جس بیرونی کمپنی یا کاروباری سے یہ سٹاک منگوایا گیا وہ کون ہے، کیا اس نے چکن حلال (ذبح) کرکے روانہ کئے تھے یا جامع مسجد دہلی کے مرغ فروشوں یا دہلی کے آ ئینہ مارکیٹ کے مرغ فروشوں کی طرح مرغ کی گردن ایک طرف کاٹ کر انہیں ڈریسڈ کی شکل عطا کی۔ دس کوئنٹل ڈریسڈ چکن کا سٹاک ضبط کرکے تلف کرنے کا یہ اگر چہ پہلا بڑا واقعہ ہے لیکن اطلاع یہ ہے کہ کئی کاروباری اب اسی طرز کا سٹاک منگواکر اپنا کاروبار چلارہے ہیں۔
گوشت بھی خام کی شکل وصورت میں باہر سے منگوایا جارہاہے جبکہ مچھلیوں کی بیشتر اقسام کی بھی مقامی بازاروں میںکوئی قلت نہیں۔ لیکن ان مچھلیوں کو تازہ رکھنے کیلئے ان پر فارمولین نامی دوائی کی لیپ لگائی جارہی ہے ۔ فارمولین نامی دوائی کا استعمال لاشوں کو سڑنے سے روکنے کیلئے استعمال کیاجارہاہے۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اگر ایک وقت میں آدم زاد صرف ۳۵؍ گرام کی حد تک فارمولین زدہ مچھلی یا گوشت استعمال کرے تو اس کے زندہ رہنے کی کوئی گارنٹی نہیںہے۔اس تعلق سے ابھی چند روز قبل شمال مشرقی خطے میں واقع ایک ریاست نے فارمولین زدہ مچھلی کی اپنی ریاست میں امپورٹ پر پابندی لگادی ہے اور اس ریاست کے لوگوں کو مشورہ دیاگیا ہے کہ وہ امپورٹ زدہ مچھلی کا استعمال ترک کریں۔
جموں وکشمیرکا محکمہ فوڈ سیفٹی اس تعلق سے لوگوں کے حفظان صحت ،سلامتی اور بقاء کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فارمولین زدہ مچھلیوں اور خام گوشت کی امپورٹ کو شجرہ ممنوعہ قرار دے گا اس بارے میں فی الحال کوئی آثارنظر نہیں آرہے ہیں۔
اتمام حجت کے طور یہ دلیل پیش کی جاسکتی ہے کہ دُنیا ترقی کی رفتار پکڑ رہی ہے،ا سی رفتار سے انسان کی ضرورتیں اور ترجیحات میں بدلائو آتا رہتا ہے۔ کشمیر جیساچھوٹا ساخطہ اس رفتار سے نہ بچھر سکتا ہے اور نہ مستثنیٰ۔ لیکن کچھ اپنی علاقائی روایات، سماجی اقدار اورعقیدہ کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجاسکتاہے ۔ لیکن بدقسمتی کہے یا کچھ اور کشمیرکے بعض کاروباری اور تجارتی حلقے اس قدر مادہ پرست ہوگئے ہیں کہ انہیں اب کچھ دکھائی نہیں دے پارہا ہے اور نہ وہ کسی غلط کو ہی محسوس کررہے ہیں ۔ان کے مطمع نظر صرف اور صرف زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول ہے چاہے اس حصول کیلئے حرام ہی حلق سے نیچے اُتار نا پڑتا رہے۔