اگر چہ کشمیر کا آفیشل نام کشمیر ہی ہے اور یہی اس کی شناخت بھی ہے لیکن مکافات عمل کے کچھ بُنیادی تقاضے بھی ہیں جنہیں پردوں کی اوٹ میں چھپانے کے باوجود چھپایا نہیں جاسکتا ہے بلکہ کسی نہ کسی شکل وصورت میں عیاں ہوکر سامنے آہی جاتے ہیں۔
اس تناظرمیں دیکھاجائے تو کشمیرکے کچھ دوسرے نام بھی ہیں جو خالصتاً کرموں کا ثمرہ ہیں۔ اندرون کشمیر عوامی سطح پر اب کشمیرکو انہی دوسرے ناموں سے یاد کیاجارہاہے، پہچانا جارہاہے بلکہ اب یہی دوسرے نام آہستہ آہستہ کشمیرکی شناخت اور نام کے حوالہ سے جڑ پکڑتے جارہے ہیں ۔ معلوم ہے کہ کئی حلقے ، جن کی اکثریت غیر سنجیدہ اور غیر ذمہ دارانہ اور عدم احساس سے عبارت ہے ان نئی شناختوں کے ساتھ اتفاق نہیں کریں گے لیکن حقیقت تلخ ہوتی ہے جنہیں جھٹلانے کی لاکھ کوشش کریں تو جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے۔
سماجی سطح پر آبادی کے مختلف طبقوں کی کاروباری اور تجارتی مصروفیات اور سرگرمیوں کا احاطہ کیاجائے تو یہ بات مترشح ہو جاتی ہے کہ ان سارے طبقوں کا تعلق اسی سماج سے ہے، یہی پیدا ہوئے، یہی دفن بھی ہوجائیں گے، لیکن بحیثیت سماجی فرد کے یہ سماج کے حوالہ سے اپنے ہمسایہ کو کیا دے رہے ہیں، سماج کی نشو نما، فراخی اور راحت رسانی کے ساتھ ساتھ ان کی صحت، سلامتی اور بقاکے تحفظ کی سمت میں کس نوعیت کا کردارادا کررہے ہیں ، اس حوالہ سے اب نہیں بلکہ ایک عرصہ سے ایسے کچھ سوالیہ ان کے آگے لگ چکے ہیں جن کا جواب تو ہے لیکن ان سوالوں کے پس پردہ نفسیات کا محض سرسری تجزیہ کرنے پر نہ صرف مایوسی ہوتی ہے بلکہ اپنے اس سماج کے ان طبقوں کے تئیں گن کا گمان غالب ہوجاتاہے۔
مثالیں اور واقعات کثرت میں ہیں، کس کس واقعہ او رمثال کو موضوع بحث بناکر سماج کے ان کچھ ابن الوقت ،استحصالی اور لٹیرانہ ذہنیت کے حامل کاروباریوں کو ان کے کرموں او رکردار کے تعلق سے آئینی دکھا کر ان پر واضح کیاجائے کہ وہ کس طرح کمسن او رشیرخوار بچوں کی زندگیوں کے ساتھ مجرمانہ مگر دانستہ کھلواڑ کررہے ہیں۔ اس حوالہ سے ابھی چند روز قبل صنعت نگر میںواقع ۱۱؍۷ نامی کریانہ سٹور پر متعلقہ سرکاری ادارے کی طرف سے ڈالے گئے چھاپے کا حوالہ بے جانہیں جب کمسن بچوں کیلئے وقف دودھ کو انتہائی ملاوٹ آمیز پایاگیا لیکن اس جانکاری اور بھرپور علمیت کے باوجود ۱۱؍۷ کریانہ سٹور کے مالک یا مالکان نے اس ملاوٹ آمیز دودھ کو نہیں ہٹایا بلکہ سیل پر دستیاب رکھا۔
دُکان کے خلاف کچھ کارروائی ہاتھ میں لینے کا سرکاری اعلان تو کیاگیا لیکن بعدمیںکیا ہوا کچھ معلوم نہیںکیونکہ کشمیر کی یہی روایت رہی ہے کہ’ ڈھنڈورا پیٹو یا پٹوااور پھر خاموش ہوجائو‘کیا کسی عدالت میں مذکورہ سٹور مالکان کے خلاف ملاوٹ کے جرم میں کوئی چالان پیش کیاگیااس کے بارے میں بھی کوئی جانکاری عوامی سطح پر دستیاب نہیں۔
سرینگر میونسپلٹی سمیت کشمیرکی دیگر بلدیاتی اداروں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ملاوٹی اشیاء کی بازاروں میں خرید وفروخت کو ناممکن بنائیں، لیکن یہ ادارے مسلسل اور متواتر مایوس کن کارکردگی کا مظاہر ہ کررہے ہیں ان کی تمام تر سرگرمیوں، مصروفیات اور توانائی کا تصرف سیاست اور سیاست کے حوالہ سے مراعات اور پروٹوکول کا حصول ہی اب تک رہاہے۔ یہ ادارے اندرون خانہ مختلف سیاسی وفاداریوں اور وابستگیوں کے حوالوں سے تقسیم درتقسیم ہیں، لوگوں کے مفادات بھاڑمیں جائیں، سرینگرمیونسپلٹی کا سربراہ اپنے میر اینڈ کمپنی کے بشمول اس حوالہ سے اپنی جو کچھ بھی کارکردگی رہی ہے اس کے بارے میں عوامی سطح پر جانکاری رکھیں تو پتہ چل جائے گاکہ یہ ’’منتخبہ کردار‘‘ کس حد تک عوام کی اُمیدوں ، توقعات اور احساسات کی تکمیل کی کسوٹی پر اب تک اُتر سکے ہیں۔
اب تک کس کس اشیا ء کا لیبارٹری تجزیہ کیاگیا،کتنی اشیاء کو کس حد تک ملاوٹ آمیز پایاگیا، اس تعلق سے کتنے کا روباریوں کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میںلائی گئی اور کتنے عدالتوں سے سزایاب ہوپائے؟یہ ایک اشو ہے، جبکہ دوسرے کئی معاملات بھی ہیں جن کی طرف بار بار متعلقہ سرکاری اداروں بشمول محکمہ صحت، ڈرگ کنٹرول اتھارٹی اور دوسرے متعلقین کی توجہ مبذول کی جاتی رہی ہے لیکن کوئی معمولی سی حرکت بھی نہیں ہورہی ہے۔ اس مخصوص اشو کا تعلق مارکیٹ میںدستیاب غیر موثر ڈپلی کیٹ اور غیر معیاری ادویات کی خرید وفروخت کے سیلاب سے ہے۔
کیاوجہ ہے کہ روزانہ بُنیاد پر لاکھوں روپے کی ادویات خریدنے اور مسلسل ان کا استعمال کے باوجود مریض کو کچھ افاقہ نہیں ہورہاہے۔ یہ غیر موثر اور غیر معیاری ادویات کشمیر میں غالباً تیار نہیں ہورہی ہے بلکہ ٹنل کے اُس پار ملک کی مختلف ریاستوں میںقائم دو اساز کارخانوں میں ہی تیار کی جارہی ہے اور کشمیر میں ان کی کھپت کو یقینی بنایاجارہاہے۔ اس کھپت کو مقامی سطح پر یقینی بنانے کیلئے مقامی سطح پر ہی کاروباری، ہول سیلر، سٹاکسٹ وغیرہ تو موجود ہیں، اس مخصوص معاملے پر ڈرگ کنٹرول اتھارٹی، محکمہ صحت کشمیر، ان کی سرپرستی کرنے والی صوبائی انتظامیہ کا رول اور اپروچ بحیثیت مجموعی نہ صرف معاونتی ہے بلکہ عوام دُشمنانہ اس حوالہ سے ہے کہ یہ ادارے اوسط شہری کی صحت سلامتی اور بقاء کے لئے بے حس ہیں۔ اس ضمن میں کشمیرکے ایک سرکردہ معالج سے استفسار کیاگیا کہ آخر دوائی کا استعمال کے باوجود مرض قابو میں کیوںنہیں تو معالج کا یہ اعترافی جواب حیران کن ہے کہ ’’ڈاکٹر تو قابل ہیں لیکن دوائی ٹھیک نہیں‘‘۔
حیرانی تو اس بات پر بھی ہے کہ ڈاکٹروں کی ایسوسی ایشن کم وبیش ہر پیش آمدہ معاملے پر ایڈوائزری جاری کرتی رہتی ہے لیکن آج تک اس تنظیم نے مارکیٹ میںدستیاب غیر معیاری اور غیر موثر ادویات کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں اداکیاہے، کیوں؟ کیا یہ اس کی اخلاقی ذمہ داری اور سماجی فریضہ نہیں؟
اسی طرح عام دکانداروں اور کاروباریوں کی بھی کئی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ ان کے عہدیدار اچھی طرح سے یہ جانکاری رکھتے ہیں کہ بازار میںکیا بک رہاہے اور کاروباریوں کارجحان کیا ہے۔ چاہئے کشمیر ٹریڈرس اینڈ منیوفیکچر ز ایسو سی ایشن ہو، بازار کمیٹیاں ہو یا اور کوئی انجمن یہ خود ہی بتائیں کہ اپنے وجود کے قیام سے لے کر اب تک انہوںنے کب اور کس وقت ملاوٹی اشیاء ، دو نمبری مال، غیر معیاری ادویات، عوام کے خلاف استحصالی ہتھکنڈوں کا استعمال اور لٹیرانہ طرزعمل کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی کو زبان دی اور اپنے کاروباری ممبران کوا س راہ اور عوا م دُشمنانہ عمل سے باز رکھنے کی کوشش کی ۔