الیکشن کے عدم انعقاد کے حوالہ سے سیاسی حلقوں میں شو روغل برپاہے۔ ہر مکتب سیاست سے وابستہ افراد اور پارٹیاں الیکشن کے فوری انعقاد کا مسلسل مطالبہ کررہی ہیں ، کوئی عدم انعقاد کے بارے میں حکمران جماعت پر الزام لگا رہا ہے کہ اس کو خوف ہے اگر فوری طور سے الیکشن ہوئے تو اس کی شکست ہوگی، کوئی ملک کے چنائو کمیشن پر یہ کہکر جانبداری کا الزام عائد کررہاہے کہ وہ جموں وکشمیر کے لوگوں کو آئینی اور جمہوری حقوق سے محروم رکھنے کا مرتکب ہورہاہے جبکہ کوئی اس وجہ سے الیکشن کا مطالبہ کررہا ہے کہ انتخابات ہوئے تو وہ اور اس کی پارٹی برسراقتدار آئیگی یا لائی جائیگی۔
الیکشن کا انعقاد اور اس میںعوام کی شرکت اور حصہ داری آئینی ضرورت ہے جبکہ جمہوری عمل کا ایک اہم ترین تقاضہ ہے ۔ عوام کو اس جمہوری حق سے کسی بھی حوالہ سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے البتہ اُس صورت میں کہ اگر جمہوری سیٹ اپ پر آمریت مسلط یا حاوی ہوجائے ۔ جب تک جمہوری اور جمہوری تقاضوں پر عمل آوری اور غیر متزلزل یقین کا اقرار کیا جاتا رہے گا تب تک لوگوں کو اس حق سے مستفید ہونے کا دستوری حق حاصل ہے لیکن اگر جمہوریت کو حاشیہ پر رکھ کر آمریت سے عبارت یا اندھی سیاسی مصلحتوں کے مطیع انداز فکر اور اپرو چ کا راستہ اختیار کرکے عوام کو اس حق سے محروم رکھنا مطلوب ہے تو اُس صورت میں ملک کی پارلیمان کیلئے لازم بنتا ہے کہ وہ متعلقہ آئینی شقوں کو معطل کرکے میڈ ان ایڈمنسٹریشن کا نظام مستحکم بناکر ملبوس اپنا جمہوری لبا س اُتار پھینک دیں۔
قطع نظر ان سبھی سوالوں کے سیاستدانوں کا ہر قبیلہ الیکشن کے انعقاد کا مسلسل مطالبہ کررہاہے ، اگر چہ کوئی کوئی یہ راگ بھی الاپ رہا ہے کہ وہ مرکز سے الیکشن کی بھیک نہیں مانگے گا جبکہ کوئی اپنے اس اختراعی نظریہ یا موقف کا پیروکار ہے کہ جب تک نہ آئین کی کالعدم شقوں دفعہ ۳۷۰؍ اور ۳۵؍ اے کو بحال نہیں کیا جائے گا وہ الیکشن کا حصہ دار نہیں بن سکتا، ان سیاست کاروں کے ان موقفوں اور اپروچوں، جنہیں وہ اختیار کرنے اور پرچار کرنے کا حق رکھتے ہیں، کوئی ان سے پوچھنے کی یہ زحمت گوارانہیں کررہا ہے کہ جس الیکشن کے حوالہ سے وہ نئی اسمبلی کی تشکیل اور اس کی سیڑھیوں کے ذریعے اقتدار کو حاصل یا بٹورنا چاہتے ہیں کیا وہ اسمبلی قانون سازی اور اختیارات کے حوالہ سے خود مختار اور مکمل ہوگی۔ بادی النظرمیں موجودہ صورتحال کی روشنی میں جواب نفی میں ہے۔
کوئی ایک بھی سیاستدان اس پر بات نہیں کررہاہے جس کا مطلب یہی اخذ کیاجاسکتاہے کہ یہ سارے سیاسی قبیلے لنگڑی اور اختیارات سے عاری اسمبلی اور کیجریوال طرز کی حکومت قبول کرنے کیلئے ایک دوسرے سے سبقت لینے کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ اگر واقعی یہی ہدف اور منشا ہے تو ان سیاسی قبیلوں کی عقل ودانش ، فہم وسیاسی شعور پر ماتم کرنے کو جی چاہے گا۔
کیاانہیں کیجریوال کی تڑپ یا اختیارات کے حصول اور بحالی کیلئے جدوجہد نظر نہیں آرہی ہے ۔لیکن اس کے باوجود یہ حضرات جنہیں سادہ سی زبان میں اقتدار کے بھوکے کا اعزاز سے نوازا جاسکتا ہے، اس اہم ترین سوال پر خاموش ہیں لیکن الیکشن کے انعقاد کی راگنی کاراگ دن رات الاپنے میں اپنا سب کچھ دائو پر لگا رہے ہیں۔
پھر بھی الیکشن جب بھی ہوں گے یہ سیاسی قبیلے اس بُنیاد پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ رائے دہندگان ان کے حق یا مخالفت میںاپنے حق رائے دیہی کا استعمال کریں گے۔ ان سیاستدانوں نے گذر ے چار سالوں کے دوران عوام کیلئے کیا کیا؟ لوگوں کو درپیش معاشرتی ، معاشی ، آئینی ،انتظامی اور سیاسی اعتبار سے کس تکلیف اور مسئلہ کو حل کرنے کی سمت میں کوئی رول ادا کیا؟ یہ سارے لوگ اپنی سیاست کررہے ہیں، اپنے مختلف نظریات اور عقیدوں کا خود اشتہار بن کر لوگوں کو مختلف نظریات کے خانوں میں تقسیم کردیا، لوگوں کے جو حقوق متاثر ہوئے ہیں اور جن کاوہ خود بھی بحالی کے حوالہ سے تذکرہ بھی کرتے رہتے ہیں کے تحفظ کیلئے کیا کوئی قدم اُٹھایا؟اس کے برعکس ان کی تمام تر توجہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے، کردارکشی، اور طعنہ زنی کرنے، آیا رام گیا رام کے طرز پر مختلف سیاسی اور بلدیاتی کارکنوں کو پارٹیوں سے نکال کر اپنی جھولیوں میں ڈال کر اور ان کے گلے میں پھول مالائیں پہنا کر فوٹو سیشن منعقد کرنے اور کچھ سکور پوائنٹ کرنے کیلئے ایک دوسرے کو اے ، بی ، سی ٹیموں کے خانوں سے پیوست کررہے ہیں۔
عام لوگوں کو سیاستدانوں کے ان چونچلوں سے نہ مطلوب ہے اور نہ وہ ان میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے درپیش مسائل اور پریشانیوں سے جھوج رہے ہیں۔ وہ مستحکم روزگار کی خواہش رکھتے ہیں۔ اپنے بچوں کیلئے معیار تعلیم کو بہتر بنانے ،طبی نگہداشت ، سڑک پانی بجلی مواصلات اور رسل ورسائل کی سہولیات فی الوقت ان کی ترجیحات ہیں۔ زمین اور نوکریوں کا تحفظ ان کی فہرست میں سرفہرست ہے۔
کس سیاستدان نے گذرے چار برسوں کے دوران عوام کو درپیش ان معاملات کو ایڈریس کیا، اس کے برعکس اپوزیشن سے ہاتھ ملا کر ان گٹھ بندھن سے وابستہ ہوکر یہاں کے عوام کوحاصل کیاہوگا جبکہ یہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں، جبکہ ایک دوسرے کی چولیوں کے پیچھے ماضی اور حال کے جھروکوں سے کچھ کالا تلاش کرنے کی ہی ٹوہ اور جنون میں مبتلا ہیں، یہ کس طرز کی سیاست ہے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہاہے البتہ اولین تاثر یہی ہے کہ سیاستدان سیاست کے نام پر خباثت کررہے ہیں اور خباثت ہی کی دکان سجانے میں اپنی سیاسی عاقبت اور عافیت تصور کررہے ہیں۔ یہ خباثت ان سیاستدانوں کو مبارک ہو، جس سیاسی خباثت پر ان دکانداروں نے لوگوں کو ناکام ہی نہیں بنایا بلکہ ان سے ہر وہ شئے جوانہیں عزیز تر تھی چھین لی اور سلب بھی کرلی۔ یہ ملازنہ رول کے سوا اور کچھ کرہی نہیں پارہے ہیں کیونکہ ان کی پیٹھ پر کچھ ایسے کالے بوجھ ہیں جن میں سے کچھ کچھ فی الحال پردوں کی اوٹ میں ہیں، اور یہ نہیں چاہتے کہ اُس بوجھ کی ہیت اور شکل عوام پر آشکارا ہوجائے۔
ٍ لوگوں کا حساس اور فکر مند طبقہ اس سارے منظرنامہ کا فہم رکھتا ہے لیکن کشمیر کی بدقسمتی یہ ہے کہ لوگوں کا ایک سادہ لوح طبقہ سیاستدانوں کے ان چونچلوں کو نہیں سمجھ پارہاہے ۔وہ لیکر کا فقیر بن بیٹھے ہیں جبکہ رائے دہی کے وقت وہ مقامیت کے اثر رسوخ میںمبتلا ہوکر اندھا بھگت بن رہاہے۔