کشمیر میں منشیات کا بڑھتا استعمال سماج کے ہر طبقے کیلئے انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن ہے۔ ایسا کیوں ہورہاہے اور کشمیر کو منشیات کے مسکن کے طور کیوں منتخب کیاگیا، اس کی بہت ساری سیاسی، سماجی اور بین الاقوامی سازشوں یا دوسرے الفاظ میںمارکیٹنگ عوامل کا بہت بڑا عمل دخل قرار دیاجاسکتا ہے۔ اس مخصوص روح فرسا اشوع پر حالیہ ہفتوں ، مہینوں میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے ، صورتحال پر کنٹرول حاصل کرنے کیلئے مختلف نوعیت کے اقدامات اور مشاورت کے حوالہ سے بات کی جاتی رہی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ نہ سماجی سطح پر نہ انتظامی سطح پر کوئی موثر، ٹھوس، کارگر دگی اور انسدادی تدارک کے حوالہ سے کوئی سنجیدہ حرکت ابھی تک نہیں ہورہی ہے ماسوائے اس بات کے کہ پولیس اور ایجنسیاں کسی نہ کسی فرد، سمگلروں کے گروہوں وغیرہ پر ہاتھ ڈالنے کی اپنی کارروائی سے متعلق بیانات اجرا کرتی رہی ہے۔
کشمیر میں نشہ آور اشیاء کا استعمال نہ صرف کشمیر کے حسن، خوبصورتی اور اقدار اعلیٰ کو ناقابل تلافی حدتک نقصان پہنچانے کا موجب بن سکتا ہے بلکہ کشمیر کی نسل درنسل ذہنی، نفسیاتی، فکری ، جسمانی ،ا قتصادی ، ورک کلچر اور سب سے بڑھ کر کشمیر کے معاشرتی ڈھانچے کو تباہ وبرباد کرکے رکھ سکتا ہے۔ یہی وہ خدشات ،وسوسے اور خوف ہے جو بے چینی کا موجب بنتے جارہے ہیں، جو گھروں کا سکون چھن جانے کا باعث بنتا جارہاہے، اگر چہ ڈی ایڈکشن مراکز، جن کی تعداد اتنی نہیں کہ جو صورتحال اور پیدا ہوتے جارہے چیلنجوں سے عہدہ برآں ہونے میں مدد گا رہوں لیکن جو لوگ جس تعداد میں نشہ کی لت میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں ان میں سے صفر عشاریہ ایک فیصد نشہ کے عادی اپنی اصلی حالت میں واپس آرہے ہیں۔لیکن اضافہ ہوتا جارہاہے اس حوالہ سے نہ کسی ثبوت اور گواہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس زمینی حقیقت کو جھٹلا یا جاسکتا ہے ۔
صورتحال پر فکر وتشویش تو مختلف سماجی ، سیاسی وغیرہ حلقوں کی جانب سے سامنے آرہا ہے اور متواتر طور سے آرہاہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اس احساس کے باوجود کوئی ٹھوس اور جامع حرکت نہ نظرآرہی ہے اور نہ ہی کوئی سنجیدہ پہل۔ دوسرا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کشمیر نشین ہر سیاستدان اس صورتحال پر بیانات دینے کا راستہ تواختیار کرتا ہے اور اپنی سوچ، فکر اور سیاسی مفادات کو مد نظر رکھ کر کسی کو نشانہ بنارہے ہیں اور کسی کو اپنی طنز کی زدمیں لارہے ہیں جبکہ سیاستدانوں کا ایک اور طبقہ ان سیاستدانوں کے بیانات کو اپنی جوابی تنقید کی زد میں لاکر اس اشو ع کو ’سیاست زدہ‘ بنارہے ہیں۔ یہ وطیرہ اور طریقہ کار مجرمانہ ہے، ذمہ داریوں سے راہ فرار کی دانستہ کوشش ہے، سیاسی پوائنٹ سکور کرنے کی جنون پرستی ہے، جبکہ سماج کے ہر طبقے کے احساسات اور جذبات کے ساتھ دانستہ مجرمانہ کھلواڑ قراردیاجاسکتاہے۔
کوئی سیاستدان چاہے روایتی ہے یا جو چاہے ابن الوقتی کے نظریے کے تحت یا کسی حادثے کی وجہ سے نیا نیا سیاست میں آیا ہے کم سے کم یہ تو بتا سکتا ہے کہ اس نے بحیثیت سماجی ذمہ دار اور فرد کے اس وبا کو قابو میں کرنے میں اب تک کون سا کردار اداکیا ہے ، کیا بیانات اور جوابی بیانات کا سہارا لینا ہی اس ناسور کا واحد حل سمجھا جارہاہے یا زمین پر قدم رکھ کر وہ تما م راستے اختیار کرکے اس بڑھتے اور پھیلتے جارہے ناسور کا خاتمہ کرنے کیلئے اب ہر سطح پر ناگزیر سمجھے جارہے ہیں۔
سیاستدانوں کے اس نوعیت کی بیان بازی طرز عمل ان کی مجرمانہ ذہنیت کا غماز سمجھا جارہاہے اور کوئی حساس اور سنجیدہ شہری سیاستدانوں کی اس نوعیت کی بیان بازی پر بغلیں نہیں بجا رہا ہے بلکہ سراپا مرثیہ خواں ہے ۔ معلو م ہے یہ لوگ کچھ بھی نہیں کرپائیں گے البتہ اس بدنصیب اور لٹی پٹی کشمیری قوم پر اتنا تو رحم کرسکتے ہیں کہ وہ اس معاملے پر خاموش رہیں اور اس کو لے کر سیاست نہ کریں۔
بار بار اس امر کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے اور سوالات بھی کہ اگر کشمیر میں نشہ آور کے تعلق سے کوئی فیکٹری ، کارخانہ نہیں ماسوائے بھنگ کی کاشت کے ، اب بھی یہ سوال زبان زدہ عام ہے کہ مسلسل دعویٰ کیا جارہاہے کہ کشمیرمیں کنٹرول لائن اور بین الاقوامی سرحد کے راستے دراندازی پر قابو پالیاگیا ہے اور جو کوئی بھی درانداز ی کی کوشش کررہاہے اس کو وہیں پر ڈھیر کیاجارہاہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ کشمیر میں بھاری مقدار میں نشہ آور اشیاء دستیاب ہے، مارکیٹنگ بھی ہورہی ہے، عادی اور لت میں مبتلا لوگ خرید بھی رہے ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ اب کنٹرول سے باہر جارہی ہے۔ آخر کن راستوں اورذریعوں سے منشیات کی سمگلنگ کی جارہی ہے اور جن لوگوں کو اب تک پکڑا جاچکا ہے کیا انٹروگیشن کے دوران ان سے ماخذ اور راستوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں اگلوایا جاسکا ہے اور اگر پوچھ تاچھ کے دوران کوئی معلومات حاصل کی گئی ہے تو اس کی بُنیاد پر موثر کارروائی کیوں کہیں زمین پر دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
یہی وہ سوالات ہیں جو اس ناسور کو سیاست کے پیوستہ کرنے کا موجب بنتا جارہاہے کیا یہ سچ نہیں کہ گجرات، مہاراشٹر،ملک کے کچھ ساحلی (سمندری) علاقوں، پنجاب وغیرہ منشیات کی سمگلنگ ، سٹاک کرنے اور آگے روانہ کرنے کے لانچنگ پیڈ کے طور استعمال ہورہے ہیں ۔ پھران علاقوں سے نشہ آور اشیاء کو کشمیرسمگل کیاجارہاہے ، جس منظرنامہ پر پولیس اور ایجنسیاں فی الوقت تک قابو پانے پر ناکام نظرآرہی ہے۔
کشمیر کی نوجوان نسل خاص طور سے نشانے پر ہے۔ یہ ایک ایسا دلخراش منظرنامہ ہے جو روح تک کو چھلنی کرتا جارہا ہے۔ یہ نسل کیوں برباد کی جارہی ہے، کون اس کا بلواسطہ اور بلاواسطہ ذمہ دار ہے، ایسا کرکے نشانہ اور ایجنڈا کیا ہے، کیا پہلا ایجنڈا اور نشانہ یہ ہے کہ کشمیر کی نوجوان اور آئندہ نسلوں کو جسمانی ، ذہنی، نفسیاتی اور فکری اعتبار سے معذور ، ناکارہ اور خالی الذہن بنایاجائے، بادی النظرمیں نشانہ اور ہدف یہی یا اس سے مشابہہ ہی نظرآرہاہے او راگر یہ نہیں تو پھر کیوں کشمیر کی نسل نشانے پر ہے؟
ذمہ داروں ، چاہے وہ چرچ لین نشین ہیں ، گپکارمیں سکیورٹی حصار میں بیٹھے ہیں، سیکریٹریٹ اور دوسرے مقامات کی آزاد فضائوں میں نظارہ کررہے ہیں کیلئے کشمیرکا یہ تیزی سے اُبھرتا اور دلخراش منظرنامہ باعث شرم ہے۔