جموں وکشمیر میں الیکشن کب ہوں گے، ہوں گے بھی کہ نہیں اس بارے میں کچھ بھی واضح نہیں ہے ، صرف باتیں ہیں، مطالبات ہیں،سوالات اور جوابات ہیں، الیکشن کے حوالہ سے کچھ دنوں تک خاموشی چھائی رہی لیکن چنائو کمیشن کی جانب روز گذشتہ پانچ ریاستوں ، جہاںآنے والے ایام میں الیکشن ہونے جارہے ہیں کے نام خطوط ارسال کئے جن میں ان سے تیاریوں اور دیگر لوازمات کی تکمیل کے تعلق سے کچھ ہدایات دی اور کچھ تفصیلات طلب کیں لیکن چنائو کمیشن کے اس ہدایت نامہ میں جموں وکشمیر کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں تھا۔
کچھ سیاسی حلقوں نے چنائو کمیشن کے اس طریقہ کار پر سوال اُٹھایا اور کمیشن سے جو اب طلب کیا، لیکن انتخابی کمیشن خاموش ہے، کوئی جواب نہیں دیاجارہاہے، نہ اس سوال کا جواب دے رہا ہے کہ آخرکیوں جموں وکشمیر میں ا لیکشن کرانے کیلئے تیار نہیں جبکہ حکومتی سطح پر اور سکیورٹی فورسز اور پولیس کا مسلسل دعویٰ ہے کہ جموں کشمیرمیں سکیورٹی گرڈ اب پہلے سے جہاں مضبوط ہے وہیں حالات تیزی سے نارمل ہوتے جارہے ہیں یہاں تک کہ اب سرحد پار سے کوئی ایک بھی دراندازی کی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیاگیا۔ الیکشن کمیشن کی آخر کیا مجبوری یا مصلحت ہے کہ وہ جموں وکشمیر میں الیکشن کی سمت میں کوئی پہل نہیں کررہاہے۔
جموںوکشمیر میں الیکشن کے انعقاد کے بارے میں حتمی فیصلہ لینے کا اختیار چنائو کمیشن کے پاس ہے۔ یہ اعلان کچھ ہفتے قبل مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کیا تھالیکن اس کے باوجود بھی کمیشن میں کوئی حرکت نہیں ہورہی ہے۔ اور اب جموں کے دورے پر آئے ایک مرکزی وزیر صاحب کا فرمان یہ ہے کہ الیکشن کے بارے میں فیصلہ ’صحیح لوگ‘ کریں گے جبکہ ایک دوسری رپورٹ میں ان سے یہ بیان منسوب ہے کہ فیصلہ ’’متعلقہ ‘‘لوگ کریں گے۔
فیصلہ کے لئے صحیح لوگ کون ہیں اور متعلقہ لوگ کون ہیں اس بارے میں وہ خاموش ہیں اور کوئی مزید وضاحت نہیں دی ہے۔ اگر فرض کرکے وزیر موصوف کے اس بیان کی عام فہم اور سادہ زبان میں تشریح کی جائے تو صحیح یا متعلقہ لوگ چنائو کمیشن نہیں بلکہ مرکز ہے۔ بہرحال چنائو کمیشن کی اس پراسرار اور مصلحت آمیز خموشی پر طنز کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ عمرعبداللہ نے اپنے ایک ردعمل میں چنائو کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ’ہمت کرکے بتائے کہ وہ یہاں الیکشن کیوںنہیں کرارہاہے… الیکشن کرانے ہیں تو کریں اور نہ کرانے ہیں تو نہ کریں ہم گھٹنے ٹیک کر بھیک نہیں مانگیں گے کیونکہ ہمارا بھی عزت نفس ہے…‘ تاہم عمر کا سوال یہ بھی ہے کہ اس کے باوجود ہم الیکشن کمیشن سے سننا چاہتے ہیں کہ اس کی کیا مجبوری ہے جبکہ کچھ ہفتے قبل خود الیکشن کمیشن نے کہاتھا کہ جموں وکشمیر میں ایک خلا ہے۔
عمر عبداللہ کے بیان پر حکمران جماعت بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر اور جموں وکشمیر کے انچارج مسٹر چگ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ عمر عبداللہ تذبذب پیدا کررہے ہیں کیونکہ کوئی الیکشن چھین نہیں رہا ہے۔ جموںوکشمیرمیں ہر جمہوری ادارے کے چنائو ہوئے ہیں جن میں لوگوں نے بڑھ چڑھ کر شرکت کی جبکہ خود عمر عبداللہ کی پارٹی نے ان چنائو کا بائیکاٹ کیا ۔ فہرست رائے دہندگان پر نظرثانی ہورہی ہے۔ سیاسی جماعتوں سے ان کی رائے لی جارہی ہے یہ سارے لوازمات مکمل ہوںگے تو الیکشن کا راستہ ہموار ہوگا۔
سیاسی پارٹیوں کے درمیان معاملات کو لے کر لفاظی ، گرم گفتاری اور سرد وگرم جنگ ہوتی رہتی ہے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیںہے، لیکن جہاں تک جموںوکشمیر کے اوسط شہری کا تعلق ہے وہ اس بات کو شدت سے محسوس کررہاہے کہ الیکشن نہ کراکے اس کا بُنیادی اور جمہوری حق چھینا جارہاہے، یہ احساس اس وجہ سے بھی شدت اختیار کرتا جارہاہے کہ چنائو کمیشن آئینی اعتبار سے الیکشن کے انعقاد کو ممکن بنانے کا ذمہ دار ہے، اس اعتبار سے وہ لوگوں کے جمہوری اور آئینی حقوق کے تحفظ اور نگہداشت کا ضامن اورمحافظ بھی ہے،لیکن جموں و کشمیر کے تعلق سے چنائو کمیشن اپنے اس کردار کونہیں نبھا رہا ہے اورغالباً کسی مصلحت سے کام لے رہاہے۔ چنائو کمیشن کے تعلق سے اس حد تک شدید تاثر پیدا نہ ہوتا اگر جموں وکشمیرکے تعلق سے اس کمیشن کا ماضی شفاف ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ رہا ہوتا۔گذشتہ صدی کی پانچویں دہائی سے لے کر برابر آج تک چند ایک کو چھوڑ کر اس کمیشن کا ریکارڈ اور شبیہ جموںوکشمیر باالخصوص کشمیر وادی کے حوالہ سے مشکوک خیال کیا جارہاہے۔
اگر چنائو کمیشن نے پہلے دن سے اپنی غیر جانبداری اور منصفانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہوتا تو دعویٰ کے ساتھ کہا جا سکتا کہ جموںوکشمیرمیں عدم سیاسی استحکام کی بنیاد نہ پڑ گئی ہوتی، لوگ جمہوری حقوق سے خود کو محروم تصور نہ کرتے اور نہ اس حوالہ سے محرومی کا ذرہ بھر بھی احساس انہیں دامن گیر ہوا ہوتا۔ بہرحال آج کی تاریخ میں جب سکیورٹی گرڈ بھی مستحکم ہے، حالات بھی پرامن ہیں اور لوگوں کی زبردست خواہش ہے کہ انتخابات ہوں تاکہ وہ اس جمہوری طرزعمل کا حصہ بن کر ایک بار پھر اپنا کردار اداکریں،چنائو کمیشن کی پر اسرار خاموشی لوگوں کو ناکام بھی بنا رہی ہے اور جمہوریت کے اس مخصوص چپٹر پر ان کے اندر نئے شکوک بھی پیدا ہورہے ہیںاور چنائو کمیشن پر رہا سہا اعتبار بھی دم توڑتا جارہاہے۔ آج جبکہ حالات بہتری کی جانب واضح اشارہ کررہے ہیں ہماری توجہ چند دہائی قبل کے زمینی حالات کی جانب مبذول ہوجاتی ہے جب کشمیر کے چپے چپے پر گن گرج اور بارود کی بو کے سوا اور کچھ نہیں تھا، اس وقت کا اعلیٰ چنائو کمشنر ٹی این سیشن نے کشمیر آکر الیکشن کے انعقاد کو ممکن بنایا۔ اگر الیکشن ان نامساعد حالات میں ممکن ہوسکے توآج کیوں نہیں؟
ہار جیت چنائو پراسیس کا لازمی جز ہے، اس ہار اور جیت کو اپنے سروں کے اوپر خوف کا سایہ تصور کرنے کا راستہ اختیار کرکے درحقیقت لوگوں کو جمہوری عمل سے دوررکھ کر ان کے بُنیادی جمہوری اور آئینی حق کو چھیننے کے ہی مترادف تصور کیاجاسکتاہے۔اگر ملک کی کم وبیش ۳۰؍ ریاستوں کے عوام کو یہی جمہوری حق استعمال کرکے اپنی پسند کی حکومت تشکیل دینے کا اختیار حاصل ہے، آزادی حاصل ہے تو سوال یہ ہے کہ پھر جموںوکشمیر کے لوگوں کو اس جمہوری حق سے محروم کیوںرکھاجارہاہے۔ وہ فیصلہ سازی اور عمل آوری میںاپنا کردار اور بھر پور رول اداکرنا چاہتے ہیں۔
اس جمہوری حق کی عمل آوری اس تعلق سے بھی ضروری محسوس کی جارہی ہے کہ حالیہ چند برسوں کے دوران یوٹی کی ایدمنسٹریشن سطح پر سرمایہ کاری ، ترقیاتی کاموں کی تکمیل، فلاحی اقدامات کی سمت میں لئے جاتے رہے مختلف نوعیت کے فیصلے اور انتظامی سطح پر ورک کلچر کے احیاء کی سمت میں جو کچھ بھی پیش رفت حاصل کی جاچکی ہے اس کو مزید مستحکم بنانے کیلئے عوام کی بھر پور شرکت اب ناگزیر بن چکی ہے اور یہ استحکام الیکشن کا انعقاد یقینی بنا کر ہی مضبوط خطوط پر استوار کیاجاسکتاہے۔