سرینگر//
جموں و کشمیر کے پلوامہ ضلع میں ایک کینسر کے مریض کے خاندان کی طرف سے مدد کیلئے جذباتی اپیل کے بمشکل ۲۴گھنٹوں کے اندر، کراؤڈ فنڈنگ سے۸۰لاکھ روپے جمع ہوئے اور اس سے زیادہ خاندان کے بینک اکاؤنٹ میں ڈالا گیا۔
اس دوران کشمیریوں کی اس کوشش کو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر سراہا گیا ہے جبکہ متاثرہ لڑکی کے افراد خانہ نے لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عوام سے مزید امداد نہ کرنے کی اپیل کی ہے ۔
پلوامہ ضلع میں ایک کنبہ جو اپنی بیٹی کا لوکیمیا (بلڈ کینسر) کا علاج کر رہا تھا‘کو اپنا سب کچھ بیچنا پڑا۔ ان کے پاس علاج کے لیے کچھ نہیں تھا۔خاندان کی جانب سے سوشل میڈیا پر فوری مدد کی اپیل کرنے کے بعد ان کے بینک اکاؤنٹ میں رقم اس طرح آنا شروع ہو گئی جیسے انہوں نے الہ دین کا جادوئی چراغ رگڑا ہو۔
۲۴گھنٹے سے بھی کم وقت کے اندر، کراؤڈ فنڈنگ کے ذریعے ۸۰ لاکھ روپے جمع کرائے گئے اور خاندان کو سوشل میڈیا پر اپنے سرپرستوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اور ان سے مزید رقم بھیجنے سے روکنے کے لیے ایک اور اپیل کرنی پڑی۔
کشمیر میں چند دہائیوں تک اس طرح کی باتیں سننے کو نہیں ملتی تھیں۔ ماضی میں سماجی ذمہ داری کا احساس کم ہی ہوتا تھا سوائے اس کے کہ کسی غریب آدمی کو سڑک پر بھکاری کو کھانا یا چلر دیا جاتا۔
۱۹۹۰ کی دہائی کے اوائل میں جب سے یہاں تشدد شروع ہوا ہے تب سے یہاں پر تشدد، موت، تباہی، سماجی رابطے کے نقصان وغیرہ کی ناقابل برداشت مقدار ہے۔ موت اور تباہی کو قریب سے دیکھ کر کشمیریوں نے سماجی ہم آہنگی اور یگانگت کی قدر جان لی ہے۔
ڈاکٹر فرح قیوم ‘ جو کشمیر یونیورسٹی میں سماجیات پڑھاتی ہیںکاکہنا ہے اگر آپ کے پڑوسی کو گزشتہ ۳۳سالوں کے دوران تشدد کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا تھا، تو آج آپ ہو سکتے ہیں۔ ’’اس نے ایک سے زیادہ طریقوں سے مقامی لوگوں کی سماجی اخلاقیات کو مضبوط کیا ہے۔ انفرادی ذمہ داریوں کے علاوہ، کشمیریوں نے سمجھ لیا ہے کہ اجتماعی ذمہ داری کی قدر اور اہمیت ہے‘‘۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس طرح کی مدد کرنے کے لئے کشمیر ہمیشہ سے جانا جاتا ہے لیکن گزشتہ روز جب اس رقم کے مکمل ہونے کے کی خبر سوشل میڈیا آئی تو ہر کوئی یہی کہتا تھا کشمیریت زندہ باد۔یہی وجہ ہے کہ وادی میں معتبر یتیم خانے اور خیراتی ادارے ہیں۔
۱۹۹۰سے پہلے ہمارے پاس صرف ایک ہی ادارے اولڈ ایج ہوم تھے اور چند یتیم خانے سرکاری خرچ پر چلتے تھے۔
قیوم کاکنا ہے’’این جی اوز صحت کی دیکھ بھال، بچوں کی دیکھ بھال اور کشمیر میں سول سوسائٹی کے دیگر طبقات میں قابل ستائش کام کر رہی ہیں یہ ثابت کرتی ہے کہ مصائب اور مصائب عظیم استاد ہیں۔‘‘