غزہ//
اسرائیلی فوج کے ایک سابق افسر نے یروشلم کے پرانے شہر میں واقع مسجد اقصیٰ کے مراکشی دروازے کی سالوں پہلے چرائی گئی چابی محکمہ اسلامی اوقاف کو واپس کر دی ہے۔
یائیر باراک نامی سابق اسرائیلی پیرا ملٹری افسر نے بتایا کہ انہوں نے یہ چابی تب چرائی تھی جب اسرائیلی فوج شہر پر قبضہ کر رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اب جب میں یروشلم میں اسرائیلیوں کی بڑھتی ہوئی اشتعال انگیز کاروائیاں دیکھتا ہوں، تو سوچتا ہوں کہ "اب وقت آ گیا ہے کہ نہ صرف اس چابی کو واپس کیا جائے بلکہ مقبوضہ مغربی کنارے اور تمام چوری شدہ سامان کو فلسطینیوں کو واپس کر دیا جائے۔”
یائیر باراک اب اسرائيلی فوج سے ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ وہ اس ہفتے، مسجد اقصیٰ میں واقع محکمہ اوقاف کے دفتر گئے، اور تاریخی مراکشی دروازے کی چابی محکمہ کے ڈائریکٹر شیخ عزام الخطیب اور مسجد اقصیٰ کے ڈائریکٹر شیخ عمر الکسوانی کے حوالے کی۔انہوں نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ چابی "صرف ایک علامت” ہے اور اس جیسی اور بھی چابیاں ہیں، لیکن وہ یہ علامتی قدم نفرت اور دشمنی کو فروغ دینے والوں کے خلاف کارروائی کے طور پر اٹھا رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا، "حق اس کے مالکان کو واپس ہونا چاہیے۔”
شیخ عزام الخطیب نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، "ہاں، چابی اس کے اصل مالکوں کو مل گئی ہے۔”80 سالہ افسر یائیر باراک "جلیل” میں ایک یہودی کوآپریٹو میں مقیم ہیں۔ 1967 میں، جب وہ انہیں اسرائیلی فوج کے ایک یونٹ کے ساتھ مشرقی بیت المقدس پر قبضہ کرنے کے لیے بھیجا گیا تو وہ چوبیس سال کے تھے۔
ان کے مطابق، وہ 1964 میں نئے بنائے گئے "سیون آرچز” ہوٹل کے قریب کوہِ زیتون میں اترے تھے۔ وہ اپنے ساتھیوں سے الگ ہونے کے بعد وہ ہوٹل میں داخل ہوئے اور وہاں سے شامی ایئر لائن کی علامت والی ایش ٹرے چرا لی۔پھر وہ پیدل پرانے شہر کی طرف گئے اور حرم میں داخل ہوگئے۔ وہاں سے یہودیوں کے مذہبی مقام "دیوار گریہ” تک پہنچنے کے لیے مراکشی دروازے کی طرف گئے اور” انہیں دروازے کے قریب کیل سے لٹکی ایک چابی ملی۔
میں نے اسے دروازے پر آزمایا اور وہ کھل گیا،مجھے نہیں معلوم کہ میں نے اس وقت اسے پاس رکھنے کا فیصلہ کیوں کیا۔ اسے چرانے کے لیے معذرت۔”
یائیر باراک نے چابی کی حوالگی کے دوران ان کے ساتھ آنے والے عبرانی اخبار ہارٹز” کے صحافی "نیر حسون” کو بتایا کہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران انہوں نے چند جاننے والوں اور دوستوں کو چابی کی کہانی سنائی تھی۔
ان میں بیرون ملک سے آیا ایک یہودی بھی تھا جو ان کی رہائشی یہودی بستی میں رضاکارانہ طور پر آیا تھا۔ یائیر نے اسے چابی دس ہزار ڈالر میں بیچنے کی پیشکش کی، لیکن اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ اسے اس کے حقیقی مالکان کو ہی دے۔
اس نے 2017 میں بھی محکمہ اوقاف تک پہنچنے کی کوشش کی، لیکن کشیدہ حالات نے اسے روک دیا۔ وہ انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ وہ "ہارٹز” کے صحافی سے ملا۔
واضح رہے کہ مراکشی دروازہ مسجد اقصیٰ کے 15 دروازوں میں سے ایک ہے۔ ان میں سے 10 کھلے اور 5 بند ہیں۔ اسے مراکشی دروازے کا نام اس وجہ سے دیا گیا کہ یہاں استعمال کی جانے والی لکڑی مراکش سے لائی گئی تھی، اس کے سامنے آباد کالونی کو بھی اسی نسبت سے مراکشی کالونی پکارا جاتا ہے