کرکٹ کی اصطلاح میں چوکوں اور چھکوں کی بارش تو اپنی جگہ مگر شائقین کرکٹ ان سے اپنی توجہ برابر مرتکز رکھتے ہیں لیکن سیاسی منظرنامے کے حوالہ سے جب سیاسی چوکوں اور چھکوں کی بات یا برسات سامنے آتی ہے تو تمام تر توجہ نہ صرف اُن کی طرف مبذول ہوجاتی ہے بلکہ عوامی وسیاسی حلقوں میں ایک طویل بحث چھڑ جاتی ہے۔
سابق کانگریسی لینڈر غلام نبی آزاد نے کانگریس کے ساتھ اپنے پچاس سال کا رشتہ تنسیخ کرکے اپنی آزادی کا اعلان کیا تو کئی حلقوں کو حیرت ہوئی کیونکہ وہ قدم قدم پر سراپا کانگریسی تھے،نظر بھی آرہے تھے اور فعلاً بھی کانگریسی عقیدہ کاسب سے بڑا جھنڈا بردار بھی تھا۔ لیکن پارٹی سے علیحدگی کے بعد اپنی سوانح حیات…آزاد میںانہوںنے اپنے سیاسی کیرئیر کے حوالہ سے کچھ مشاہدات اور واقعات کا جو احاطہ کیا ہے اس سے یہ تاثر مستحکم ہوجاتاہے کہ سیاسی محلات کے اندر جو کچھ ہوتا ہے وہ عموماً باہرنہیں آتا لیکن سیاسی محلات کے اندر تانابانوں کے حوالوں سے جو کچھ ہوتا رہتا ہے وہ جب کسی تصنیف یا سوانح حیات کی شکل میں باہر عوامی صفوں کی زینت بن جاتا ہے تو محلاتی سازشوں اور تانا بانوں کا کچھ کچھ پتہ چل جاتا ہے۔
غلام نبی آزاد نے انہی کچھ معاملات اور واقعات کے تعلق سے جو کچھ بھی اپنی سوانح میں درج کیا ہے وہ سچ ہے یا غلط یا محض سیاسی دعویٰ اس بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ ہم نہ تو ا ن معاملات کے گواہ ہیں اور نہ کسی حوالہ سے جانکاری رکھتے ہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ جو کچھ سوانح میں دعویٰ کیاجارہاہے اور جس وقت کے تعلق سے منسوب ہیں یادیں ضرور اُن ادوار کی طرف لوٹ جاتی ہیں۔
پی ڈی پی صدر مفتی محمد سعید کے حوالہ سے شرکت اقتدار کے تناظرمیں آزاد نے جو کچھ کہا غالباً وہ غلط یا گوبلز طرز کا فسانہ نہیں۔ کشمیرکی سیاست پر قریب سے نظررکھنے والے جانتے ہیں کہ مفتی محمدسعید مرحوم اقتدار پر ست تھے اور اس کے حصول کیلئے وہ کسی بھی حد تک اپنی سیاست کرجاتے تھے۔ اندرا…شیخ اکارڈ کے روشنی میں مرحوم شیخ محمدعبداللہ کو اقتدار واپس ملا اور وزیراعلیٰ سید میر قاسم نے جموںوکشمیرکے وسیع تر مفاد میں اقتدار سے دستبرداری دے کر بڑی قربانی دی۔ لیکن کچھ ہی مہینوں کے بعد کانگریس نے اپنی حمایت واپس لے لی جس حمایت واپس لینے کی قیادت مرحوم مفتی محمدسعید کررہاتھا۔ لیکن اس چھرا گھونپی کے باوجود جونئے الیکشن ہوئے مفتی محمدسعید مرحوم اقتدار حاصل نہ کرسکے۔
اس تناظرمیں آزاد کا یہ دعویٰ کہ مرحوم مفتی نے میری سخاوت کا ناجائز فائدہ اُٹھاکر وزارت اعلیٰ کی کرسی کا تقاضہ کیا فریق ثانی کے کردار وعمل کے تناظرمیں غلط یا دعویٰ نہیں لگتا۔پھر کیا مفتی محمدسعید نے ۲۰۱۴ء کے انتخابات کے دوران عوام سے یہ فرمائش نہیں کی کہ بی جے پی کو پیش قدمی سے روکنے کی صلاحیت صرف ان کی پارٹی کے پاس ہے لہٰذا انہیں اعتماد دیا جائے، لیکن پھر اُس نظریہ کاکیاہوا، پھر وہ وقت بھی ذہن پر کلہاڑا مارتا محسوس ہورہا ہے جب مفتی مرحوم نے بحیثیت وزیرداخلہ کے اعلان کیا کہ ’’بات بنے گی گولی سے بولی سے نہیں‘‘اور اس طرح مرکز میں جنتا دور حکومت کے دوران کشمیر کی سڑکوں پر صرف اور صرف لاشوں کے انبار ہی انبار نظرآتے رہے۔
اسی نظریہ اور پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے اُسی دور میں کشمیری پنڈت ترک سکونت پر مجبوراور بے بسی کے عالم میں جموں، دہلی اور ملک کے کئی دوسرے علاقوں میں پناہ گزین ہوئے، اُس دور کا وزیراعظم کوشش کرتا اور اپنی بالادستی اور اختیارات کا مناسب اور صحیح استعمال کرکے بروقت فیصلہ کرتا تو کوئی کشمیری پنڈت گھرانہ ترک وطن پر مجبور نہ ہوا ہوتا۔ اس بات کی بھی تصدیق غلام نبی آزاد نے اپنی سوانح حیات میں کی ہے۔
سیاستدان نیک نیت ہو، عوام پر ور ہو، مخلص ہو، رعایا کا خیال رکھتا ہو تو کامیابی اس کے قدم چومتی ہے اور عوام صلے میں فرش سے اُٹھاکر تخت پر بٹھاتے ہیں لیکن اگر سیاستدان کے قول وفعل میں تضاد ہو اور اُس تضاد کو پردوں کی اوٹ میں کرکے خوشنما اور دیدہ زیب نعروں کی آڑ میں گمراہ کرکے عوام کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کررہا ہو لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ عوام اپنے ساتھ ہورہے اس نوعیت کے کھلواڑوں کو وقت پر محسوس نہیں کرپارہے ہوں یا نہ دیکھ پارہے ہوں تو ایسے سیاستدان وقتی طور سے ضرور کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن اپنی اس کامیابی کے نشے میں بدمست ہوکرلوگوں کو بھیڑ بکریوں کا ریوڈیا تسخیر شدہ شئے تصور کرکے اپنی بدمستی کو پروان چڑھاتے ہیں ۔ کشمیر کے ساتھ اکثر وبیشتر سیاستدانوں کا رویہ بلکہ وطیرہ یہی رہا ہے ، یہ تاریخی حقیقت ہے کوئی مفروضہ نہیں۔
بہرحال غلام نبی آزاد نے کچھ دوسرے پہلوئوں پر بھی اپنے تاثرات بیان کئے ہیں جن میں خاص طور سے جموںوکشمیر میںالیکشن کے بعد کی اُبھرنے والی صورتحال کا تذکرہ خاص طور سے قابل ذکر ہے۔ انہوںنے الیکشن کے بعد ایک نئی صف بندی کا بھی اشارہ کرکے واضح کیاہے کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ حکمران جماعت بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملاسکتے ہیں کیونکہ بی جے پی کوئی اچھوت نہیں۔
جموںوکشمیر میںالیکشن کے بعد یا اس سے قبل کسی نئی سیاسی صف بندی کی بات اب کچھ مدت سے کی جارہی ہے۔ اپنی پارٹی کے سرپرست سید الطاف بخاری بھی بی جے پی کے حوالہ سے واضح کرچکے ہیں کہ وہ کوئی (کورونا)اچھوٹ نہیں ہے۔ کشمیر سے اپنی پارٹی اور چناب خطے سے غلام نبی آزاد کی جانب سے حکمران بی جے پی کے ساتھ الیکشن کے بعد اشتراک عمل کے واضح اعلانات بی جے پی کو حوصلہ عطا کررہے ہیں بلکہ جموں وکشمیرمیں اس کی گرفت مضبوط نظرآرہی ہے۔
دو اہم پارٹیوں کے قبل از وقت اعلانات یا اشارے کیا یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ جموںوکشمیر مائنس این سی، پی ڈی پی اور کانگریس کی طرف پیش قدمی کررہاہے؟ تاہم اس خیال پر حتمی مہر تصدیق ثبت کرنے کیلئے ابھی کچھ وقت کا انتظار ہے البتہ پی ڈی پی نے غلام نبی آزادکے سوانح حیات میںمفتی مرحوم کے حوالوں سے دعوئوں کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ ’’کیسے ممکن تھا کہ ۱۶؍ ممبران والی پی ڈی پی سونیاگاندھی کو بلیک میل کرتی‘‘