اسلام دین فطرت ہے اس پر سبھی متفق ہیں۔ پیغمبر آخر الزمان ﷺ کو حکم ہوا کہ دین کی دعوت دیں جو فریضہ آپ ﷺ نے اداکیا اور اس کی تصدیق صحابہ کرام کے ساتھ ساتھ خطبتہ الوداع کے اجتماع کے موقعہ پر موجود ہزاروں لوگوں نے اس کی تصدیق کی اور اس تصدیق کی روشنی میں آپ ﷺنے اللہ تعالیٰ کو اپنا گواہ بنایا۔ اس کے بعد دین کی ترویج وتبلیغ کا فریضہ آپﷺ کے بعد آنے والوں پر ڈالدی گئی۔خلفائے راشدین اور جلیل القدر صحابیوں، علماء اور بزرگوں نے اس مشن کو بہ احسن خوبی آگے بڑھایا اور اس حوالہ سے ان تمام بزرگان دین کی یہ انتھک محنت رنگ لائی اور اقوام عالم کا ایک بہت بڑا حصہ مشرف بہ اسلام ہوا جنہوںنے پھر اپنی فتوحات کا دائرہ دُنیا کے دور دراز علاقوں تک بڑھانے میںکامیابی حاصل کی۔
یہ ایک ایسا روشن اور تابناک پہلو ہے جو اپنی ایک منفرد مثال اور مقام کے ساتھ اسلامی تاریخ میں درخشاں باب کی حیثیت رکھتاہے۔اس مشن اور جذبہ سے سرشار آج کی تاریخ میں بھی لاتعداد موجود ہیں جودین کی ترقی، ترویج اور تبلیغ کے مشن پر معمور ہیں اور اپنا فریضہ اداکررہے ہیں ۔
لیکن بدقسمتی سے دوسرا پہلو بھی اب بتدریج اُبھر کرسامنے آرہاہے۔ مدرسوں میںتعلیم حاصل کرنے والے کچھ مولوی صاحبان ، مفتی صاحبان، فقہ پر گہری نظر اور باریک بینی سے سمجھنے کے کچھ دعویدار ، فہم قرآن کے نام پر کچھ حضرات، جبکہ کچھ احادیث کی آڑ لے کر بظاہر اور بزعم ترویج دین کے دعویداروں کے روپ میںسامنے آرہے ہیں لیکن ان کی تقریریں، ان کے ارشادات ان کا انداز بیان بے شک شیرین محسوس ہورہاہے لیکن ان کے بیانیے کا بین السطور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے بلکہ شدت سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ اصل میںدین کی ترویج اور فہم کے حوالہ سے کوئی خدمات انجام نہیںدے رہے ہیں بلکہ قرآن فہمی، حدیث فہمی، فقہ اور اسوہ حسنہ کی بہتر اور خوب تر فہم رکھنے کا دعویٰ کرکے لوگوں کے ذہنوں کو پراگندہ ہی نہیں کررہے ہیں بلکہ اسلام سے دور لے جارہے ہیں ساتھ ہی غیر مسلموں تک ان کی اس نوعیت کی سرگرمیوں اور انداز بیانات اور معاملات کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی تواتر کے ساتھ کوششوں کے نتیجہ میں غلط پیغام جارہاہے اور جو غیر مسلم دین فطرت کی طرف مائل ہوتے نظرآرہے ہیں وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
غیر مسلموں کی دین فطرت کی طرف پیش قدمی ایک الگ معاملہ ہے، خود مسلمانوں کے اندر اب جس نظریاتی، عقیدتی اورمسلکی پھوٹ کے بیج ڈال کر بوئے جارہے ہیںوہ بہت ہی خطرناک ہیں اور مستقبل قریب میں نقصان دہ مضرات کے ساتھ یہ بظاہر بھی ہوسکتے ہیں۔
مثالیں درجنوں میں نہیں سینکڑوں میںدسیتاب ہے۔ سعودی عربیہ میں نیا شہنشاہ ملک کے اقتدار حکمرانی اور خاندانی (شاہی) سیاسی منظرنامے پر کیا اُبھر رہا ہے کہ وہ اب حدیث سے ہی انکار کررہاہے اوردعویٰ بھی کررہاہے اور مسلمان ملکوں کو یہ مشورہ بھی دے رہاہے کہ وہ دور جدید کے تقاضوں کے پیش نظر احادیث وغیرہ کی نعوذ باللہ تجدید وترمیم کار استہ اختیار کریں۔اس مقصد کے لیے ایک ٹیلی ویژن چینل کو بھی قائم کیاگیا ہے جس کی وساطت سے برصغیر ہندوستان اور پاکستان کے جید علماء کی دینی تصنیفات ، قرآن واحادیث کی تفسیرات، بشمول فضائل اعمال تک کو غلط قرار دے کرانہیں شرک سے منسوب قراردیاجارہاہے۔
ابھی چند ہفتے قبل دارالعلوم دیو بند میںزیرتعلیم کچھ طالب علموں کو محض اس ’جرم‘ کی پاداش میں درس وتدریس اور کلاسوں سے ڈسمس کردیاگیا کہ انہوںنے داڑھی نہیںرکھی تھی۔ انہیں امتحانات میںبھی بیٹھنے کی اجازت نہیں ملی۔ طلبہ نے معافی بھی مانگ لی لیکن نہیں معاف کیا گیا۔ ان بچوں کو اسلامی تعلیمات سے محروم کرنے کا کارنامہ دارالعلوم کے مولانا مفتی اسد قاسمی جو جامع شیخ الہند دیوبند کی حیثیت رکھتے ہیںنے یہ کہکر انجام دیا کہ ان بچوں نے سنت کے مطابق داڑھی نہیں رکھی تھی۔ا س حوالہ سے دیوبند ہی سے تعلق رکھنے والے ایک اور صاحب مولانا حسین احمد جو ناظم تعلیم ہیں کا کہنا ہے کہ اسلام میں مردوں سے کہاگیاہے کہ وہ ’’مشت بھر‘‘ داڑھی رکھیں اور بچوں کو دیوبند سے خارج کرنے کا جو نوٹس اجرا کیاگیا ہے اس پر انہی صاحب کے دستخط ہیں۔
دیو بند کے ان مولوی صاحبان نے بچوں کو نکال باہر کرکے اسلام کی کون سی خدمت انجام دی۔ بے شک داڑھی کے بارے میں احکامات موجود ہیں لیکن یہ بھی تو ذہن میں رکھنا لازمی کیا نہیں کہ اس حوالہ سے مرد اور بچہ میں فرق تو ہوگا پھر داڑھی نہ رکھنا اس مرحلہ پر کہ جب وہ ابھی زیرتعلیم ہی تھے کو اتنی بڑی سزا فتنہ ہی قرار دیاجاسکتا ہے یا جنونیت کا مظہر!
برصغیر کے ایک بہت بڑے اسلامی سکالر ہیں جو احادیث کے بظاہر منکر تو نہیںلیکن اپنے مخصوص پیرائیوں ہیں احادیث کی تفسیر پیش کرتے رہتے ہیں۔ سفر معراج ﷺ کے حوالہ سے ان کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ سفر آنحضور ﷺ نے جسمانی طور سے نہیںکیابلکہ یہ ایک خواب تھا۔
اس وقت رمضان المبارک کا مبارک مہینہ جاری ہے اور مختلف حلقوں میں تراویح ۸؍ یا ۲۰؍ کے حوالہ سے روایتی بحث جاری ہے۔کچھ مفتی اور مولوی صاحبان معلوم نہیں اپنے کس زعم میںمبتلا ہیں ان ۸؍یا۲۰؍رکعت تراویح کو بدعت قرار دے رہے ہیںنوآزمود مولویوں اور مفتیان کے درمیان یہ بحث دین فطرت کو نقصان تو پہنا ہی پائیگی لیکن جو مسلمان بچہ اس بحث وتکرار کے تناظرمیں بلوغت میں قدم رکھے گا وہ اسوقت کس ذہنی خلفشار کا شکار ہوگا اور اس کا ردعمل آگے آنے والے دنوں میں کیاہوگا؟
حجاز میں تشریف فرما ایک لمبے قد کے نحیف سے مولوی صاحب کا فرما ن ہے شیعہ کی تین نمازوں کو چھوڑ دو اہل سنت والجماعت جو کلمہ پڑھتے ہیں وہ ثابت ہی نہیں۔ المیہ کہے یا بڑی بدقسمتی سرزمین پاکستان ایسے مولویوں، مفتیوں، عالموںوغیرہ کو جنم دیتا جارہاہے جو بظاہر اپنی اپنی فہم کے مطابق اسلام کی ترجمانی اور پیروی کادعویٰ کررہے ہیں لیکن مسلکی عصبیت اور مسلکی جنون میں اس حدتک مبتلا ہوچکے ہیں کہ انہیں خود اپنے گردوپیش کا بھی اب پتہ نہیں۔ ایک نو آموز نوجوان عالم صاحب ہر روز اپنی چینل پر جلوہ گر ہوکر ایک ایک فتنہ چھوڑ رہے ہیں۔ ان کا تازہ ترین فتنہ یہ ہے کہ قرآن کریم اصل حالت میں نہیں ہے بلکہ اس میں اس کے بقول آنحضورﷺ کے بعد تحریف کی گئی ہے۔باغ فدک کے حوالہ سے بھی وہ نیا فتنہ برپا کرنے کی کوشش کررہا ہے جبکہ اولین تین خلفائے راشدین کو وہ خلفاء تسلیم کرنے سے انکار کررہے ہیںاور اُنہیں ظالم قرار دے رہے ہیں ۔ انہیں کے مسلک سے وابستہ ایک اور صاحب چیلنج کررہے ہیں کہ قرآن کے بارے میں کہا جارہاہے کہ پہلی وحی غار ثور میں اُتری، لیکن دیکھا کس نے اور راوی کون؟
اہل کشمیر !خدارا ان نو آزمود مولویوں،مفتیوں، جنونیوں،مسلکی عصبیتوں میں مبتلا فتنہ پروروں کے بحث ومباحثہ کو نظرانداز کریں اور اپنے اُس اسلام کی پیروی کریں جو ہم تک ہمارے عظیم محسن حضرت امیر کبیرؒ کی وساطت سے پہنچا اور جس کی اپنی زبان میں تشریح حضرت نورالدین ولی علمدار کشمیر ؒ نے کی۔