واشنگٹن//
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر نے جمعہ کو کہا کہ ابراہیم معاہدے نے ثابت کیا ہے کہ ممالک کے درمیان مستقل دشمنوں جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔”
کشنر نے یہ بات اس ہفتے میامی میں منعقد ہونے والے سالانہ فیوچر انویسٹمنٹ انیشی ایٹو کی ترجیحی سمٹ سے خطاب کے دوران کہی۔
وہ سابق امریکی صدر ٹرمپ کے سینئر مشیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس دوران انہوں نے انکشاف کیا کہ کس طرح انہوں نے ٹرمپ کو اقتدار سنبھالنے کے بعد مشرق وسطیٰ کا پہلا غیر ملکی دورہ کرنے پر مجبور کیا تھا۔
روایتی طور پر، امریکی صدور کا پہلا دورہ کینیڈا، میکسیکو یا یورپی ملکوں کا ہوتا ہے۔
کشنر نے کہا کہ "بہت سارے روایتی لوگ جن کے ساتھ ہم کام کر رہے تھے وہ چاہتے تھے کہ ٹرمپ سب سے پہلے کینیڈا یا میکسیکو جائیں”
لیکن 2016 کی صدارتی مہم کے دوران داعش کے خلاف لڑائی ایک بڑا مسئلہ رہا تھا، اسی طرح مشرق وسطیٰ کا انتشار بھی اہم مسئلہ تھا۔
کشنر نے کہا کہ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے پہلے بش اور اوباما انتظامیہ نے "واقعی وہاں (مشرق وسطی) میں بڑی گڑبڑ کی تھی۔”
کشنر نے کہا کہ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے لیے پہلے سرکاری دورے پر رضامندی کے بعد وہ سعودی عرب کے ایک نوجوان رہنما سے ملنے کے قابل ہوئے، جو اب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہیں۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ شہزادہ محمد اس دوران پیغامات بھیج رہے تھے کہ وہ ایک "بڑی تبدیلی” کرنا چاہتے ہیں۔
کشنر کے مطابق، "روایت پسندوں” اور پالیسی سازوں نے انہیں بتایا کہ سعودی کبھی نہیں مانیں گے، اور یہ تبدیلیاں قابل عمل نہیں ہوں گی۔
انہوں نے کہا، "اور میرے پاس کوئی [سیاسی] تجربہ نہیں ہے، لیکن اگر کوئی آپ کو کہہ رہا وہ تبدیلی کرنا چاہتا ہے، اور اگر ہم اس تبدیلی سے متفق ہیں، تو آئیے انہیں ایسا کرنے کی کوشش کرنے کا موقع دیں” "اور اس لیے ہم نے اس سفر پر بہت محنت کی، اور اس سے ملنے والی نتائج واقعی تاریخی تھے۔”
ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب کے دوران طے پانے والے اقتصادی اور سیاسی معاہدوں کے علاوہ ایک اہم ترین معاہدہ ملک میں انسداد انتہا پسندی کے مرکز کے قیام کے لیے تھا۔
کشنر نے انسداد دہشت گردی کے مالیاتی مرکز پر روشنی ڈالی، جس سے امریکہ کو مشرق وسطیٰ کے بینکنگ سسٹم تک رسائی ہوئی اور انہیں ” اس رقم کا سدباب کرنے کا موقع ملا جو شرپسند عناصر کے پاس جا رہی تھی۔