ایک اور سفاکانہ قتل، سوال پنڈت یا مسلمان کا نہیں جیسا کہ بعض میڈیا گھرانے اپنی لذت پسندی کی خاطر ایسے سفاکانہ واقعات کے حوالہ سے پیش کرکے حاصل کرنے کی مذمو کوشش کرتے رہے ہیں بلکہ یہ ہے کہ جوقتل ہورہاہے اس کا گناہ یا قصور کیا ہے اور جو قتل کررہا ہے یا کرارہا ہے اس کا مذموم منصوبہ کیاہے اور چاہتا کیا ہے؟
بینک محافظ کی ہلاکت پر مشکل سے ہی کسی سیاسی پارٹی یا کسی سیاسی لیڈر نے مذمتی بیان نہ دیا ہو، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا سدباب کرنے کی سمت میں اقدامات اُٹھانے کا مطالبہ کرکے قتل میں ملوث کو کیفر وکردار تک پہنچانے کی مانگ نہ کی ہو، پولیس اور سکیورٹی ایجنسیوں نے بھی اپنے روایتی انداز اور اپروچ کو برقراررکھتے ہوئے بہت جلد ملوث یا ملوثین کو کیفر وکردار تک پہنچانے کا اعلان کیا ہے جبکہ کچھ نے حکومت کو یہ کہکرذمہ دار ٹھہرایا ہے کہ حکومت ٹارگٹ کلنگ کو روکنے اور سکیورٹی حصار فراہم کرنے میں اپنے بلند بانگ اعلانات کے باوجود ناکام ہے۔
یہ کشمیر اور کشمیریوںکی بہت بڑی بلکہ سب سے بڑا المیہ اور بدقسمتی ہے کہ ان کا خون بہایا جارہاہے جب اس خون بہالہر کے وہ نہ میزبان ہیں اور نہ شراکت دار ۔ لیکن اس کے باوجود کوئی معلوم کے نام پر تو کوئی نامعلوم کے نام پر کھاتہ کھول کھول سرزمین جنت کشمیر کو مسلسل لہو رنگ بنائے رکھنے کے راستے پر گامزن ہے۔۱۹۸۹ء میں یہ خون بہا شروع ہوا اور سالہاسال گذرنے کے باوجود معصوموں کا خون بہانے کا سلسلہ نہیں رک پارہاہے۔
اب تک جتنا بھی خون بہایا گیا، جتنے قبرستان آباد کئے گئے ، جتنے شمشان گھاٹ ماتم کدہ بنائے گئے اگر ان بہیمانہ او رسفاکیت سے عبارت واقعات سے کچھ حاصل ہواہوتا تو دعویٰ کیا جاتا کہ ’قربانیوں ‘کا کچھ نہ کچھ صلہ مل گیا ، قطع نظر اس کے کہ قربانیاں کس لئے اور کس نظریہ یا عقیدے کی تکمیل اور حصول کیلئے، لیکن اب تک تو حاصل صفر بھی نہیں ، ماسوائے اس امر کے کہ گھروں کے گھر تباہ وبرباد ہوتے گئے، یتیموں اور بیوائوں کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہا ، کفالت سے بہت سارے گھرانے اور خاندان محروم ہوتے جارہے ہیں، سروں پر سے سرپرستی کا سایہ اُٹھتا جارہاہے، نہ دن کا چین ہے اور نہ رات کا سکون، اب اس مخصوص منظرنامہ کو دیکھ کر یہ بھی محسوس ہورہاہے کہ کشمیر ایک ایسے مرحلہ میں قدم رکھ رہا ہے جس کو عام فہم زبان میں ’نفسا نفسی کا عالم‘کہا جاتاہے۔
بحیثیت مجموعی سارا کشمیر ، جو اس نوعیت کے دلخراش اور روح فرسا معاملات میں نہ یقین رکھتے ہیں، نہ پسند کرتے ہیں ، یہاں تک کہ یہ ان کی فطرت ثانی بھی نہیں، اس نوعیت کے واقعات کے مضمرات اور کچھ حلقوں کی جانب سے منفی ردعمل کا بوجھ سہ رہا ہے اور یہ بوجھ اُٹھاتے اُٹھاتے اور سہتے ان کی کمر او رقوت استعداد بھی جواب دیتی نظرآرہی ہے۔
سنجے شرما کے سفاکانہ قتل کی اس واردات پر اس کا سارا گائوں سوگوار ہے، مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ آنجہانی ترک سکونت کرکے نہیں گیا تھا بلکہ اپنے گھر اور اپنے گائوں میں ہی رہائش پذیر رہا۔ آپس میں ہر دُکھ سکھ میں شریک رہے، لیکن اس کے باوجود کہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا، کسی سیاست کا حصہ نہیں تھا اس کی زندگی چھین لی گئی ، ایک اور گھرانہ کو زندگی بھر کا دُکھ دیاگیا، آنے والے وقت میں ان کا یہ دُکھ عذاب مسلسل ثابت ہوتا رہیگا۔
بے شک اس ایک اور سفاکیت پر کشمیر نشین ہر سیاسی گھرانے نے مذمت کی اور ملوثین کو قرار واقعی کیفر وکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔ لیکن یہ سوال کرنے، ان سے پوچھنے اور جواب مانگنا غلط نہیںہے کہ خود ان کا کردار اور رول کیا ہے۔ یہ سارے سیاسی قبیلے مسلسل دعویٰ کررہے ہیں کہ ان کی حیثیت بڑے بڑے سیاسی گھرانوں اور معتبر سیاسی قافلوں کی ہے، ۳۲؍سال سے کشمیر لہورنگ ہے، ۳۲؍ سال سے یہ سارے گھرانے اور قبیلے مذمتی بیانات جاری کررہے ہیں، اظہار افسوس بھی کررہے ہیں اور کسی کسی کے گھر جاکر لواحقین کی ڈھارس بندھاکر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کو بھی زبان دے رہے ہیں۔
کیا اپنے اپنے سیاسی مقاصد اور عزائم کی تکمیل کیلئے جلسوں اور نشستوں کا اہتمام وانعقاد ہی حرفِ آخر ، منزل آخر اور متاع ِسیاست ہے؟ کیا اس نوعیت کی سفاکیت کے خلاف ایک جٹ ہوکر ایک مشترکہ پلیٹ فورم پر جمع ہوکر اور اپنے اپنے سیاسی نظریات کے حامیوں کے ساتھ سڑک پر آواز بلند کرکے دُنیا پر یہ پیغام دے کر واضح نہیں کرسکتے کہ ہمارا کشمیر کا اس دہشت گردی، جس کے کئی چہرے ہیں، کچھ عیاں ہیں اور کچھ پوشیدہ ہیں، کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو لوگ یا عنصر اس نوعیت کی سفاکیت اور حیوانیت میںملوث ہیں یا ان کی سرپرستی کررہا ہے وہ کشمیرکے نام پر اس خونین باب کو بند کردے۔
وقت اور حالات کا بھی یہی تقاضہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی ملک کے ان چند میڈیا ہائوسوں سے بھی یہی مخلصانہ گذارش کی جارہی ہے کہ وہ کشمیر میں ٹارگٹ کلنگ کے بدبختانہ واقعات کو ہندو اور مسلمان یا کسی دوسرے مذہبی عینک سے دیکھنے اور پیش کرنے کی اپنی لذت پسندی اور مخصوص عزائم سے اجتناب کریں۔کشمیر اور کشمیری عوام کو ایک عفریت کے طور ملکی رائے عامہ کے سامنے پیش کرنے کی ان میڈیا ہائوسوں کی روش اور خوگریت نے کشمیر اور اس کے عوام کے وسیع ترمفادات کو اب تک بہت نقصان بھی پہنچایا ہے اور دُکھ بھی ، کشمیر کو عفریت کے طور پیش کرنے کی ان مذمو م کوششوں سے اجتناب کرنے کے مشورے کچھ سابق گورنر بھی دے چکے ہیں اور ملک کی کچھ معتبر سیاسی شخصیات بھی مسلسل یہی مشورہ دیتی رہی ہے۔ لیکن افسوس توا س بات کا ہے کہ تعصب اور جنونیت نے ان نشریاتی اداروں کو اندھا بنارکھا ہے اور وہ کشمیر دُشمنی کی اپنی فطرت اور ذہنیت سے باز نہیں آرہے ہیں۔
بہرحال سنجے کی ہلاکت کے اس معاملہ نے سکیورٹی کے حوالہ سے ایک بار پھر کچھ سوال اُبھارے ہیں۔ انتظامیہ مسلسل دعویٰ کررہی ہے کہ ان کی سیکورٹی کے جامع انتظامات کئے گئے ہیں، البتہ یہ بھی صحیح ہے کہ فرداً فرداً سکیورٹی کا انتظام کسی بھی حکومت کیلئے ممکن نہیں لیکن کچھ نہ کچھ حصار تو قائم کرنے کی اشدت ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔