ہندوستان کا سیاسی نریٹو ہر گذرتے دن کے ساتھ نہ صرف انتہا پسندی کی طرف رُخ اختیار کرتا جارہا ہے بلکہ اس نریٹو میں اخلاقی انحطاط کا ہر پہلو نمایاں ہوکر شدت اختیار کرتا جارہاہے۔رواداری ،مفاہمت اور بقائے باہم سیاسی منظرنامے سے بھی اور سیاسی نریٹو سے بھی غائب ہوتا جارہاہے۔ المیہ یہ ہے کہ اب کم وبیش ہر سیاسی پارٹی اور ان سے وابستہ لیڈر شپ خو د کو نہ صرف اس نئے نریٹو سے وابستہ کرتی جارہی ہے بلکہ اپنے حامیوں کو بھی اسی راستہ پر چلنے کی تحریک اور ترغیب دی جارہی ہے ، ان کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور ان کی سرپرستی بھی کی جارہی ہے۔
نریٹو میں یہ انتہا پسندی اور اس میں شدت کو ووٹ بینک سیاست کا دوسرا عنوان سمجھا جارہاہے ۔ اس مخصوص مگر بدزبانی اور غیر شائستگی سے عبارت نریٹو کے زیر اثر ملک کے مختلف ادارے بھی آرہے ہیں۔ بالکل اُسی انداز اور روپ میں جس انداز اور روپ میں ہماری ہمسائیگی میں سرحد کے اُس پار ادارے ملک کے اندر اُبھر رہے اور تیزی سے جگہ پارہے نریٹو کے زیر اثر آکر اب اپنے اپنے مخصوص مفادات اور وابستہ نظریات کے مطیع کام کرتے نظرآرہے ہیں۔
یہ سیاست اور سیاسی اقدار کی بتدریج تنزلی ہے یا اقتدار ہر حالت اور کسی بھی قیمت پر حاصل کرنے یا اقتدار کے تحفظ کیلئے نئے نریٹو پر مبنی سیاسی اقدار کا حصار مضبوط سے مضبوط بنانے کی سوچ کا مظہر ہے یا دونوں بحیثیت مجموعی !سیاست کو اچھی طرح سے نہ سمجھنے کا گہرا فقدان رکھنے والے اور سیاسی لیڈروں کو ان کی لغزشوں ، کوتاہیوں ، غلط طریقہ کار ، منفی انداز فکر اور اپروچ کو اپنی آنکھوں سے قدم قدم پر مشاہدہ کرنے کے باوجود دودھ کا دھلا تصور کرنے کی روش اس نئے سیاسی نریٹو کو پروان چڑھانے کی سمت میں آکسیجن کا کام کررہی ہے۔یہ سیاسی نریٹو جو کسی بھی اقدار یا اصول پر مبنی نہیں ملک کی فرقہ وارانہ اور علاقائی یکجہتی کیلئے نہ صرف سم قاتل اور نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے بلکہ بہت سارے خطرات بھی اُفق پر منڈلاتے واضح طور سے دکھائی دے رہے ہیں۔
اس نئے سیاسی نریٹو یا نئے سیاسی اقدار بلکہ اُبھر رہے نئے سیاسی کلچر کے ایک قابل فخر حصہ کے طور منتخبہ اراکین پارلیمان، اسمبلیوں ،بلدیاتی اداروںوغیرہ کی وابستگیاں توڑنے کا کلچر بھی شدت اختیار کرتا جارہاہے۔ اگر چہ پہلے بھی ماضی قریب میں ممبران پارٹیاں چھوڑ کر دوسری کسی پارٹی کے چرنوں میں سجدہ ریز ہوا کرتے تھے اور جب یہ کلچر تمام تر حدود سے تجاوز کرتامحسوس کیاگیا تو عوامی نمائندگان سے متعلق ایکٹ میں ترمیم کردی گئی۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب ایسے ممبران جو پارٹیاں بدلتے رہتے تھے کو آیا رام گیا را م کا عنوان دیاگیا۔ لیکن اب اُس عوامی نمائندگان سے متعلق ایکٹ کی ترمیم کی بھی پروا نہیں کی جارہی ہے۔ اب بھیڑ بکریوں کے ریوڑوں کی طرح منتخبہ ارکان کی خرید وفروخت کی جارہی ہے، مقصد حصول اقتدار اور تحفظ اقتدار کے ساتھ ساتھ ذاتی حقیرمفادات کا تحفظ کے سوا اور کچھ نہیں۔
ہونا تو یہ چاہئے کہ اگرکوئی رکن پارٹی وابستگی تبدیل کرنا چاہتا ہے تو وہ پہلے اُس منڈیٹ کو واپس کرے جس منڈیٹ اور شناخت کے ساتھ عوام نے اس کے ہاتھ میں اپنا منڈیٹ تھمادیا ہے۔ منڈیٹ کو واپس کئے بغیر وفاداری یا وابستگی کی تبدیلی عوام کے منڈیٹ کی سراسر توہین ہے ، دھوکہ اور جعلسازی ہے۔ عوام جو رائے دہندہ ہیں کو بھی چاہئے کہ وہ اس ذہنیت کے افراد کو اپنا منڈیٹ نہ دیں۔
سیاسی نریٹو کی تنزلی کا ایک اور پہلوجس کا تعلق اُس بدزبانی، غیر شائستگی اور طعنہ زنی کے ساتھ ساتھ کردار کشی کی صورت سے ہے جو اب آہستہ آہستہ سامنے آرہاہے۔ اس سلسلے میں کانگریس سے کئی دہائیوں سے وابستہ رہے سینئر لیڈر غلام نبی آزادکی پارٹی سے مستعفی ہوکر جموں وکشمیرمیں ایک نئی پارٹی کی تشکیل کے فوراً بعد اُس ردعمل کا حوالہ کافی ہے جو کانگریس کے ایک اور لیڈر جے رام رمیش اب تک بار بار سامنے لاتے رہے ہیں۔
رمیش نے آزاد کو ’’میر جعفر، غدار اور غلام ‘‘ قراردیا اور آزاد کے بارے میں اپنی اس بدزبانی کو متعدد بار دوہرایا ہے۔ زائد از چار دہائیوں سے کانگریس کے ساتھ وابستہ رہ کر مختلف حیثیتوں میںخدمات انجام دینے والے لیڈر کو میر جعفر، غدار اور غلام قرار دینا درحقیقت اُسی نئے سیاسی کلچر کی کڑی ہے جو ملک بھر میں اُبھر رہا ہے بلکہ ایسا کہنے والے دراصل اپنے منہ پر کالک پوت رہے ہیں۔
آزاد نے کون سے میر جعفر کاساکردار اداکیا، کون سی غداری کی اورکس کا غلام بن گیا؟ جے رام رمیش یا اس حوالہ سے کانگریس کو اپنی اس ذہنی اور سیاسی پسماندگی اور غلاظت کے بارے میں مکمل تفصیلات ، اگر کچھ ہیں، عوام کے سامنے پیش کرنے چاہئے۔ آزاد کو ملک کا ایک اعلیٰ اعزاز بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی جیب سے نہیں بلکہ ملکی خدمات کے عوض دیا، کیا حکمران جماعت کی طرف سے اعزاز سے نوازنا اس کی غلامی ہے؟
بہرحال آزاد نے رمیش کو ہتک عزت کا نوٹس روانہ کردیا ہے جس میں کانگریس کے اس نو زائد لیڈر سے کہاگیا ہے کہ وہ دو ہفتوں کے اندر اپنا بیان واپس لے، میڈیا کی وساطت سے معافی مانگ لے ورنہ دو کروڑ کا ہر جانہ اداکرنے کیلئے تیار رہے۔ سوال دو کروڑ کا نہیں بلکہ عزت اور احترام کا ہے، جس کا اب دوسری کئی پارٹیوں کی طرح کانگریس کے اندر بھی فقدان واضح طور سے سرائیت کرتا محسوس کیاجارہا ہے۔
کانگریس اور آزاد کے حوالہ سے تذکرہ یہاں محض مثال کے طور پر کیاگیا ہے ورنہ درجنوں مثالیں سیاسی منظرنامہ کو سمجھنے کیلئے دی جاسکتی ہیں، جومثالیں حقیقی ہیں تصوراتی نہیں۔ اس نئے اُبھرتے سیاسی کلچر یا سیاسی نریٹو کو قدغن لگانے کی اخلاقی، سیاسی اور معاشرتی ذمہ داری ان سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کی ہے جو فی الوقت سیاسی لینڈ سکیپ سے وابستہ ہیں۔ اگر چہ اس نئے بدزبان سیاسی لینڈ سکیپ کے جنم داتا بحیثیت مجموعی یہی لوگ ہیں لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم کئے بغیر نہیں کہ ا س لینڈ سکیپ سے وابستہ ایسے بھی بہت سارے سیاستدان ہیں جو فکروتشویش اور اضطراب میں مبتلا ہیں اور چاہتے ہیں اس ابھرتے سیاسی کلچر کویہی پر قدغن لگانے کی ضرورت ہے اور اگر ایسا نہیں کیاگیا تو یہ ملک کے مستقبل تو دور کی بات حال کے حوالہ سے بھی انتہائی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔