سیاستدان چھوٹا ہو یا بڑا اس کا حتمی ہدف اور زندگی بھر کی سیاست کا مشن ’’اقتدار‘‘ ہوتا ہے۔ دُنیا میں بہت کم سیاستدان ایسے گذرے ہیں جنہوںنے اپنی سیاسی زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دیئے، لوگوں کی خدمت کی، ان کی بھلائی ، ترقی، خوشحالی اور ان کے تہذیبی، ثقافتی ،لسانی، انسانی سیاسی اور نظریاتی حقوق کے تحفظ کیلئے قربانیاں بھی دیں لیکن اقتدار کو اپنے لئے شجرہ ممنوع سمجھا۔
ویسے سیاستدان کا حصول اقتدار کا خواب دیکھنا اور اپنی سیاسی زندگی کے سفر کو اس حوالہ سے ایک مشن کے طور پر آگے بڑھانا گناہ یا جرم نہیں لیکن سیاسی پنڈتوں نے اس کیلئے کچھ معیارات ، پیمانے اور کچھ راہنما حصول مقرر رکھے ہیں۔ لیکن آج کے سیاستدانوں اور ان کی سیاست پر محض سرسری نگاہ ڈالنے سے یہ مترشح ہوجاتا ہے کہ عصر حاضر میں مشکل سے ہی کوئی سیاستدان ان پیمانوں اور معیارات کی کسوٹی پر اُتر پارہاہے۔
کشمیرنشین سیاستدان ہو یا جموں نشین سیاستدان اسی صف میں کھڑے نظرآرہے ہیں ۔ جموں وکشمیر اور اس کے عوام جس دور سے کچھ سالوں سے گذر رہے ہیں۔ یہ سیاستدان ان کو اُس سنجیدگی سے ایڈریس نہیں کررہے ہیں جو تقاضہ ہیں البتہ ہرسیاستدان ۷ x۲۴ اقتدار میں آنے کی اس طرح اپنی خواہش کا برملا اظہار کررہاہے کہ جیسے اقتدار کی لیلیٰ بس اس کے چند قدم کے فاصلے پر اس کا بے صبری سے انتظار کررہی ہے اور اس کو گلے لگانے کیلئے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی ہے۔
غلام نبی آزاد، سید الطاف بخاری، ڈاکٹر فاروق عبداللہ ،کانگریس کی مقامی قیادت، بی جے پی کی لیڈر شپ، محبوبہ مفتی، لال سنگھ وغیرہ اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے مخصوص انداز اور لہجوں میں اقتدار میں آنے اور حکومت تشکیل دینے کا لوگوں کو مژدہ سناتے رہتے ہیں۔
زمین کے مالکانہ حقوق کی بحالی، ملازمتوں میںسوفیصد حق کا تحفظ، جائیداد ٹیکس قانون پر نظرثانی، روشنی سکیم کی بحالی سمیت ان سارے معاملات پرحکومت کی تشکیل کے بعد نظرثانی کا وعدہ کیاجارہاہے۔ بہرحال وعدے اور یقین دہانیاں اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ یہی وہ سیاستدانوں کاطبقہ ہے جو ماضی اور ماضی قریب میں بھی عوام سے مختلف نوعیت کے وعدے کرتی رہی ہے اور یقین دلاتی رہی ہے لیکن چھوٹا ساسوال یہ ہے کہ ان وعدوں اور یقین دہانیوں کی عمل آوری کا شرح تناسب کیارہاہے؟ ویسے وعدوں او ریقین دہانیوں اور بار بار ضرورت پڑنے پر ان کا اعادہ سیاست اور سیاستدانوں کا چولی دامن کا ساتھ سمجھا جارہاہے لیکن جب کوئی سیاستدان عوام کے جذبات کے ساتھ کھیل کھیل کر انہیں گمراہ کرتا رہے اور اپنا سیاسی الوسیدھا کرتا رہے تو وہ اپنی اس جیت پر نازاں تو ہے لیکن اس جیت کو عوام کی اپنے ہاتھوں، اپنے بے عمل سوچ اور بے نتیجہ ردعمل کا ہی ثمرہ تصور کررہا ہے۔
انتخابات کب ہوںگے، انتخابات سے قبل ریاستی درجہ بحال ہوگا یا بعد میں یا بحال ہی نہیں کیاجائیگا، یہ اہم ترین سوال اپنی اہمیت کے ساتھ اپنی جگہ لیکن ڈاکٹر فاروق عبداللہ سمجھتے ہیں کہ وہ(دہلی) ریاستی درجہ بحال نہیں کریں گے، وہ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں، ہمیں معلوم نہیں، وہ جموں وکشمیرکے فی الوقت بزرگ سیاستدان ہیں اور ملک کے مختلف حصوں کا دورہ کرتے رہتے ہیں، اپوزیشن کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ سرکردہ شخصیات کے ساتھ وہ رابطہ میں ہیں، پارلیمنٹ کے رکن بھی ہیں جبکہ ملک کی اپوزیشن جماعتوں کی صف میں ان کا اپنا ایک منفرد مقام ہے، اس تعلق سے ریاستی درجہ کی بحالی یا عدم بحالی کے تعلق سے وہ بہتر معلومات رکھتے ہوں گے۔
لیکن اصل اور بُنیادی سوال یہ ہے کہ جو لیڈر شپ انتخابات کے بعد حکومت تشکیل دینے اور موجودہ ایدمنسٹریشن کی جانب سے برسات کی مانند لئے جارہے فیصلوں کو کالعدم قرار دینے یا نظرثانی کی بات کررہے ہیں ، ان کا یہ دعویٰ کس یقین کے ساتھ ہے، عقل ، فہم وادراک سمجھنے سے قاصر ہے کیونکہ یہ بات ہر سیاسی طلب علم تسلیم کررہاہے کہ کم سے کم کشمیر کاووٹ تقسیم درتقسیم ہوچکا ہے اس تقسیم کا کیوں کشمیر کا سیاستدان اعتراف نہیں کررہاہے۔
پھر بھی فرض کریں کوئی بھی سیاسی پارٹی اکثریت کے ساتھ حکومت تشکیل دینے میںکامیاب ہوتی ہے لیکن وہ کس اکثریت کے بل بوتے پر قانون سازی کرپائیگی جبکہ فی الوقت سارے اختیارات براہ راست دہلی کے پاس ہیں۔ یہ بھی فرض کرلیں کہ کوئی کسی اشوع پر قانون سازی کی جائیگی لیکن اس کی کیا گارنٹی ہے کہ گورنر اس قانون سازی یا فیصلہ پر اپنی مہر تصدیق ثبت کرئیگا۔ بحیثیت یوٹی اس کے پاس کوئی اختیار نہیں، سارے اختیارات گورنر کی وساطت سے دہلی کے ہاتھ میں ہیں۔
اس مخصوص منظرنامہ ، جواپنے تمام تر خدوخال کے ساتھ واضح ہے، کے ہوتے سیاسی لیڈر شپ عوام کو جو خواب دکھا رہی ہے وہ جب حقیقت ہی نہیں اور فوری طور سے ممکنات میں بھی نہیں توکیوں لوگوں کو گمراہ کرکے ان کے جذبات سے کھیلا جارہاہے۔ اگر چہ بار بار کچھ لیڈران یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ وہ سیدھی اور صاف صاف بات کررہے ہیں، عوام کو جھوٹ کے سہارے خواب نہیں دکھا رہے ہیں اور نہ ان کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ان دعویداروں کا یہ دعویٰ ہی گمراہ کن ہے۔
اس سیاسی چہرے کے باوجود اگر کشمیر نشین سیاسی لیدڑشپ واقعی عوام کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے حوالہ سے حسن غمخوار اور سنجیدہ ہے تو اپنے نزاعی یا غیر نزاعی اختلافات کو وسیع ترعوامی مفادات کی خاطر حاشیہ پر رکھ کر ایک ٹیبل پر بیٹھ کرکوئی متفقہ لائحہ عمل مرتب کیوںنہیں کرتے جو کشمیر کا بیانیہ کہلاتا۔ اس کے برعکس ہر پارٹی اور ہر لیڈر ایک دوسرے کی کردار کشی ، طعنہ زنی، چولی کے پیچھے کیا ہے کا ترانہ مسلسل گاتا سنا جارہاہے۔
جموں کاسیاسی لینڈ سکیپ بھی کشمیرکے موجودہ سیاسی لینڈ سکیپ سے مختلف نہیں۔ اگر چہ کچھ عرصہ قبل جموں کے حوالہ سے ایک جموں بیانیہ کی داغ بیل ڈالی گئی تھی لیکن اس بیانیہ میں جنون اور علاقہ پرستی کے عنصر کے کئی پہلو محسوس کئے جارہے تھے البتہ وقت گذرتے وہ بیانیہ بھی دیوار کے ساتھ لگ گیا ہے کیونکہ جموں میں زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں کو اس بات کا احساس ہورہاہے کہ کشمیرجموں پر اور جموں کشمیر پر حد سے زیادہ تقریباً ہر ایک شعبے کے تعلق سے انحصار رکھتا ہے۔بے شک دونوں خطوں کے درمیان کچھ ایک نظریاتی اختلافات ہیں لیکن وہ اختلافات اتنے گہرے اور سنگین نہیں کہ ان اختلافات کی شدت اور سمت کا رُخ موڑا یا تحلیل نہ کیاجاسکے۔
دونوں کے عوامی مفادات یکساں ہیں، حقوق یکساں نوعیت کے ہیں، معاشرت ایک جیسی ہے، ایک دوسرے پر انحصار رکھتے ہیں، دونوں خطے فیڈرل کی ایک مشترکہ اکائی ہے ۔ اس پس منظر میں دونوں خطوں کی لیڈر شپ کا بین علاقائی مذاکرات اور رابطہ ناگزیر ہی نہیں بلکہ مشترکہ مفادات کے تحفظ کی سمت میں اصل ہدف ہونا چاہئے۔