سرینگر//
جموں کشمیر میں ریاستی اراضی سے قبضہ چھڑانے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کے درمیان‘ڈی پی اے پی کے چیئرمین غلام نبی آزاد نے جمعرات کو کہا کہ اگر ان کی پارٹی اقتدار میں آتی ہے، تو وہ روشنی ایکٹ کو واپس لائے گی جس کے تحت مکینوں کومالکانہ حقوق دیے گئے تھے۔
یہ ایکٹ ۲۰۰۱ میں نیشنل کانفرنس حکومت نے نافذ کیا تھا، اور نومبر ۲۰۱۸ میں اس وقت کے گورنر ستیہ پال ملک نے اسے منسوخ کر دیا تھا۔
آزاد نے جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ایکٹ کے تحت لوگوں کو دی گئی اراضی کو واپس لینے کی انسداد تجاوزات مہم کو روکا جانا چاہیے۔ ’’اگر ہم حکومت بناتے ہیں تو پھر روشنی اسکیم کو نافذ کریں گے۔‘‘
روشنی ایکٹ، جسے باضابطہ طور پر جموں اور کشمیر اسٹیٹ لینڈ (قابضین کو اراضی کی ملکیت) ایکٹ، ۲۰۰۱کے نام سے جانا جاتا ہے، فاروق عبداللہ حکومت نے نافذ کیا تھا۔
حکومت کے مختلف پاور پراجیکٹوں کیلئے فنڈز اکٹھا کرنے کیلئے اس قانون نے قابضین کو قبضہ شدہ اراضی کی ملکیت دی تھی۔
۲۰۰۵ تا ۲۰۰۸ کے دوران آزاد کی وزارت اعلیٰ کے دور میں قانون میں ترمیم کی گئی۔
آزاد نے جمعرات کو اپنے پارٹی کارکنوں سے بھی خطاب کیا اور لوگوں سے وعدہ کیا ’’ اگر میری پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو ہم اسمبلی میں روشنی ایکٹ کو دوبارہ نافذ کریں گے‘‘۔
۲۰۱۴ میں، کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (سی اے جی) کی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ ایکٹ کے تحت مختلف پارٹیوں کے بہت سے سیاسی افراد کو فائدہ پہنچایا گیا ہے۔
نومبر ۲۰۱۸ میں اس وقت کے گورنر ستیہ پال ملک نے اس ایکٹ کو منسوخ کر دیا۔ ۹؍ اکتوبر ۲۰۲۰ کو، جموں و کشمیر اور لداخ کی ہائی کورٹ نے ایکٹ کو غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر پائیدار قرار دیا، اور سی بی آئی تحقیقات کا حکم دیا۔بعد میں حکومت نے ایسی زمین واپس لینے کا فیصلہ کیا۔
آزاد نے کہا’’آج نوٹس جاری کیے جا رہے ہیں، زمین واپس لی جا رہی ہے۔ میں نے یہاں کے لوگوں کی غربت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسمبلی میں روشنی کا بل پاس کرایا تھا۔ ہندو ہوں، مسلمان ہوں، کشمیری ہوں، گجر،بکروال ہوں، ان کے پاس۱۰۰ سال سے زائد زمینیں تھیں جب گھر میں صرف دو افراد تھے‘‘۔
ڈی اے پی کے چیئرمین کاکہنا تھا’’اب، وہ تعداد میں بڑھ چکے ہیں اور ان زمینوں پر نہیں رہ سکتے۔ وہ گھر نہیں بنا سکتے اور نہ ہی کھیتی باڑی کر سکتے ہیں۔ اس لیے میں نے انہیں سرکاری زمین کا مالک بنا دیا۔‘‘انہوں نے کہا کہ یہ قانون منتخب نمائندوں کے ذریعے، ایک منتخب حکومت نے اسمبلی میں پاس کیا تھا۔
سابق وزیر اعلیٰ نے مزید کہا’’یہ فیصلہ لوگوں کی غربت ختم کرنے کیلئے کیا گیا، تاکہ ان کے پاس کم از کم گھر یا کچھ زمین ہو یا چھوٹی دکان یا کچن گارڈن۔ اس کی وجہ سے کون سا طوفان آیا؟ ہم نے کسی دوسرے ملک کو نہیں بلکہ اپنے لوگوں کو زمین دی۔ زمین لوگوں کیلئے ہے‘‘ ۔
گزشتہ چند ہفتوں میں، جموں و کشمیر انتظامیہ نے سینکڑوں کنال سرکاری اراضی واگزار کرائی جو کئی اعلیٰ شخصیات سمیت لوگوں کے قبضے میں تھی۔
آزاد کا کہنا تھا کہ جموں وکشمیر کے لوگ پراپرٹی ٹیکس ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں لہذا حکومت کو چاہئے کہ وہ اس فیصلے کو چند برسوں کے لئے موقوف کرے ۔
آزاد نے کہا کہ یہاں کے لوگوں کے پاس کھانا کھانے کیلئے پیسے نہیں ہیں تو وہ ٹیکس کیسے ادا کریں گے ۔
ڈی اے پی کے چیئرمین نے کہا’’ٹیکس دینے میں ہمارے لوگوں کو کوئی دقت نہیں ہے لیکن آمدنی بھی ہونی چاہئے ۔ہمارے لوگوں میں ابھی یہ ٹیکس دینے کی سکت نہیں ہے ‘‘۔ان کا کہنا تھا’’لوگوں کے پاس ابھی کھانا کھانے کے لئے پیسے نہیں ہیں تو وہ ٹیکس کیسے ادا کریں گے ‘‘۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سرکار سے میری یہی اپیل ہے کہ وہ اس ٹیکس کو چار پانچ برسوں تک روکے جب تک یہاں لوگوں کے اقتصادی حالات ٹھیک ہوجائیں گے ۔انہوں نے کہا کہ جب یہاں سیاحت، باغبانی، ہینڈی کرافٹس کے شعبے ٹھیک ہوں گے تب لوگ ٹیکس دینے کے لائق ہوں گے ۔ان کا کہنا تھا کہ سرکا کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے ساتھ ہمدردی کرے اور دفتروں میں بیٹھ کر نہیں بلکہ عوام کے ساتھ مل کر پالیسیاں بنائے ۔
انسداد تجاوزات مہم کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا’’انسداد تجاوزات مہم پر روک لگنی چاہئے تھی‘‘۔