پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان، جو تحریک انصاف پاکستان کے بانی صدر بھی ہیں سمیت دُنیا کے کئی سیاستدانوں نے سیاست کو ملکی نظریات کے تحفظ کی حدود سے باہر نکال کر ایک ایسا پیرھن زیب تن کردیا ہے جس نے سیاست کے معنی اور مفہوم کو ایک نیا نام اور ٹائٹل عطاکرکے اس کی ہیت ہی تبدیل کرکے رکھدی ہے۔ اس نئی سیاست کی بُنیاد وقت کے تقاضوں، بدلتی ترجیحات اور ذاتی خواہشات کی مطیع بناکر ’یوٹرن‘ کے فلسفے پر رکھی جارہی ہے۔ اس حوالہ سے عمران خان کاکوئی ثانی نہیں۔
کشمیر کی سیاسی اُفق پر کچھ عرصہ سے عمرانی سیاسی طرز عمل اور اپروچ کا سا انداز فکر و عمل مشاہدے میں آرہا ہے۔ بے شک سیاسی بیانیہ میں مناسب وقت پر باالخصوص بدلتی ترجیحات اور ضروریات کے مطابق لچک ناگزیر ہے لیکن کشمیرکے تناظرمیں کچھ معاملات ایسے بھی ہیں جو لچک سے مُبرا اور مستثنیٰ ہوسکتے ہیں کیونکہ وقت ایسے کسی بیانیہ کو نہ صرف مسترد اور ناقابل قبول قرار دے کر اپنے سے بہت دور پھینک کر آگے بڑھ چکا ہے بلکہ مابعد پیش آمدہ واقعات اور معاملات نے برآمد نتائج کے تناظرمیں بھی ایسے بیانیہ کی اہمیت زمین بوس کرکے رکھدی ہے۔
کشمیر کی سیاسی اُفق کے حوالہ سے ایک ایسا ہی بیانیہ نہ صرف وقت غلط ثابت کرچکا ہے بلکہ مابعد کے پیش آمدہ معاملات اور واقعات کے تناظرمیں برآمد نتائج بھی ایسے کسی بیانیہ کو قبرستان کی زینت بنا چکا ہے۔ لیکن نہ معلوم کیوں محبوبہ مفتی جی اپنی پارٹی باالخصوص اپنے والد کے تعلق سے ایک ایسے ہی ناکام اور مسترد بیانیہ کی گلی سڑی اور دفنائی نعش کو باہر نکالنے کی سعی لاحاصل میں پھر سے کوشاں نظرآرہی ہیں۔ ویسے یہ ان کا حق بھی ہے اور حد اختیارات کے ساتھ ساتھ چونکہ اس مخصوص بیانیہ کا تعلق ان کی پارٹی کے ماضی کی پالیسی اور ناکام بلکہ مسترد شدہ بیانیہ سے ہے لہٰذا ان کی طرف سے گڑھے مردے اکھاڑنے کی کوشش قابل فہم ہے ، دوسرے الفاظ میں وہ اپنے والد کے اُس مخصوص بیانیہ جسے ان کی پارٹی اور وہ خود ذاتی طور سے بار بار اعادہ کرتی رہی ہے کہ وہ مفتی مرحوم کا مخصوص مشن اور وژن تھا کی ناکامی اور اُس پر عوامی ردعمل کا اعتراف کرنے کیلئے تیار نہیں!
ملکی سطح کی کوئی بھی سیاسی پارٹی کشمیر کی سیاسی گلیاریوں میں اپنے لئے کوئی مقام یا جگہ حاصل کرسکتی ہے، آئین میں ایسی کوئی شق موجود نہیں جو کسی ملکی سطح کی پارٹی کو کشمیر کی سیاست میں شامل ہونے سے روک سکے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی ماضی میں مختلف ناموں اور پرچموں تلے جموں وکشمیرمیں سرگرم رہی ہے ۔ یہ پارٹی ماضی میں جموں وکشمیر کی الیکٹورل پراسیس کا بھی حصہ رہی ہیں۔ البتہ ۲۰۱۴ء کے الیکشن میں مفتی محمدسعید نے عوام کے سامنے آکر یہ نعرہ دیا کہ اگر کوئی پارٹی بھارتیہ جتنا پارٹی کو جموںوکشمیر میں قدم جمانے سے روک سکتی ہے تو وہ صرف پی ڈی پی ہے۔مفتی مرحوم نے اسی نعرے اور بیانیہ کا ہمالیہ کھڑا کرکے لوگوں سے اپنے اور اپنی پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کی۔ لوگوں کی کثرت نے اس اپیل پر لبیک کہی، پارٹی کی جھولی میں ۲۸؍ کامیابیاں ڈال کرروایتی پارٹی نیشنل کانفرنس کو تیاگ دیا۔ لیکن یہ منڈیٹ حاصل کرنے کے بعد کیا مفتی محمدسعید نے عوام کی خواہشات کی لاج رکھی؟
مفتی مرحوم نے حصول اقتدار کی خاطر اُسی چہرے سے یوٹرن لی جس چہرے کے ساتھ جلوہ افروز ہو کرانہوںنے بی جے پی کے خلاف عوام سے ووٹ دینے کی بھیک مانگی تھی؟ پھر پورے چار سال تک پارٹی مرکز کی حکمران جماعت کے ساتھ شریک اقتدار رہی۔ اُس اتحاد کو مفتی مرحو م نے نارتھ اور سائوتھ کا مستقبل کے حوالہ سے شراکت نامہ قراردیاتھا لیکن اب اُس اتحاد کو محبوبہ جی یہ کہکر ایک نیا بیانیہ تراشنے کی کوشش کررہی ہے کہ اس شراکت داری کا مقصد بی جے پی کو جموںوکشمیر میںکسی شرارت سے دور رکھنے کی سمت میں اس کے ہاتھ پائوں باندھے رکھنے سے تھا۔
محبوبہ جی !اپنی پارٹی کے اُس ناکام مشن اور وژن کا اعتراف آج کی تاریخ میں کیاجائے تو کچھ بات بن سکتی ہے ، مسترد مشن اور وژن کو اس کے برآمد نتائج کے تناظرمیں ایک نیا بیانیہ یہ کہکر یا اس دعویٰ کے ساتھ کہ ’’میری پارٹی کے خلاف پروپیگنڈہ‘‘ کیاجارہاہے حساس عوامی حلقے ہضم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ کیونکہ یہ ناکام مشن اور وژن اپنے تمام بیانیوں کے ساتھ ابھی جمعہ جمعہ۸؍ ہی دن پرانا ہے اور لوگوں سے یہ توقع رکھنا کہ ان کے ذہنوں اور یادوں سے یہ محو ہوچکا ہوگا ممکنات میں نہیں۔
پی ڈی پی صدر نے اپنے بیان میں حریت کانفرنس کے ساتھ مذاکرات کیلئے راہیں ہموار کرنے کا بھی تذکرہ کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ حریت لیڈرشپ نے دہلی سے آئے وفد سے بات کرنے سے انکار کرکے وفد کی بے عزتی کی۔ اس تعلق سے کچھ پہلوئوں کو نظرانداز کیاجارہاہے۔ حریت کو مذاکرات کی دعوت دہلی نے نہیں محبوبہ جی نے دی تھی جو اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے درست نہیں تھی۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ حریت کانفرنس کی لیڈر شپ نے دہلی سے آئے وفد کے ساتھ بات کرنے سے انکار کرکے کشمیریوں کی مہمان نوازی کو ہی داغدار نہیں بنایا بلکہ اپنی بدترین آمریت سے عبارت انداز فکر اور اپروچ کا مضحکہ خیز مظاہرہ بھی کیا۔ جو کشمیری عوام نے انہی دنوں بحیثیت مجموعی مسترد کردیا اور حریت لیڈر شپ کو دوٹوک الفاظ میں بتادیا کہ بات سے انکار کرکے انہوںنے اچھا نہیں کیا بلکہ انکا یہ انداز فکر اور طرز عمل ان کی نخوت اور اپنے آقائوں کے تئیں ان کی ملازمانہ وفاداری کا محض بھونڈااظہار ہے۔
البتہ مذاکراتی عمل کے حوالہ سے کچھ تلخ تاریخی پہلو بھی ہیں جنہیں نظرانداز کرنے یا آج کی تاریخ میں سیاسی مصلحتوں کے تابع حاشیہ پر رکھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس حوالہ سے ایک واقعہ ایسا بھی ہوگذرا جو ابھی تک معمہ ہے اور وہ یہ کہ جس جنگجوقیادت نے دہلی جاکر مرکزی قیادت کے ساتھ بات کی واپس آکر کچھ ہی مدت بعد اُس قیادت کا صفایا کیاگیا، کون تھا وہ ……؟ کس نے یہ نعرہ دے کر یہ مخصوص بیانیہ اختیار کیا کہ ’’بولی سے نہیں بات بنے گی گولی سے …‘‘
معاملات پر یوٹرن لینے سے پہلے کچھ اہم اور حساس نوعیت کے پہلوئوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ناگزیر ہے۔ کیا تصدق مفتی جب وہ مخلوط کابینہ کا حصہ تھے نے ایک بیان میں ’’پی ڈی پی اور بی جے پی کو جرائم کا شراکت دار قرار دے کر یہ فتویٰ اعتراف کے ساتھ جاری نہیں کیاتھا کہ لوگ اب ہم پربھروسہ نہیں کرتے…‘‘ تصدق مفتی نے یہ اعترافی بیان وسط اپریل ۲۰۱۸ء میں دیا تھا۔
اس تناظرمیں محبوبہ مفتی کا یوٹرن کے ساتھ نیا بیانیہ کیا کسی توجہ یا اہمیت کا حامل ہے لوگ بہتر فیصلہ کرسکتے ہیں۔ البتہ یاد ماضی کی تلخیوں کے پس منظرمیں ان تجزیاتی سطور کا مقصد کسی کی دل آزاری، بے جاتنقید یا نکتہ چینی اور نہ کسی کی خوش آمد ہے بلکہ تاریخ کے ایک تلخ ورق کو ذہن اور پیش نظر رکھ کر آگے قدم بڑھانے سے ہے۔