مرکزی حکومت اور یوٹی ایڈمنسٹریشن کی مسلسل کاوشوں اور ترغیبات کے نتیجہ میں کشمیر کی سیاحت میںایک نئی روح پھونک گئی ہے۔جس تعداد میں سیاح واردِ کشمیر ہورہے ہیں اُس تعداد کو ملحوظ خاطر رکھ کر کہاجاسکتا ہے کہ کشمیرکی سیاحت کی صنعت نئے سرے سے زندہ ہوگئی ہے، سیاحت کی صنعت کے اس احیاء کے حوالہ سے کہاجاسکتا ہے کہ یہ ایک راحت بخش نوید ہے ، جس کا کشمیر کو خیر مقدم کرنا چاہئے۔
بے شک سیاحت سے وابستہ سٹیک ہولڈروں نے بھی اس صنعت کے احیاء کی سمت میں اپنا اہم کرداراداکیا جبکہ محکمہ سیاحت نے ملک کے مختلف حصوں میں روڈ شوز اور دیگر تقاریب منعقد کرنے کے ساتھ ٹریڈ اینڈ ٹریول سے وابستہ اداروں کے ساتھ میٹنگیں کرکے قابل تعریف رول اداکیا۔
روزانہ ۴۵اور ۵۰ کے قریب ہوائی جہازوں کی آمد اور روانگی کشمیر میں سیاحت کی صنعت کے احیا ء کا واضح انڈیکیٹر ہے جبکہ گیسٹ ہائوس اور ہوٹلوں کی پیشگی بُکنگ اس تعلق سے دوسرا اہم انڈیکیٹرہے۔ سیاحوں کی ریکارڈ توڑ آمد سے سیاحت سے وابستہ جتنے لوگ اور ادارے ہیں ان کیلئے واقعی یہ ایک اطمینان بخش منظرنامہ ہے کیونکہ یہ لوگ حالیہ برسوں کے دوران مختلف وجوہات اور واقعات باالخصوص کوڈ۔۱۹ کے پیش نظر بڑے پیمانے پر متاثررہے ۔ یہ مرحلہ سیاحت اور سیاحت سے وابستہ لوگوں کیلئے تکلیف دہ تھا۔
لیکن سیاحت سے ہی وابستہ کچھ باتیں تکلیف دہ ضرور ہیں۔ مثلاً سیاحوں کے بھاری رش کو دیکھتے ہوئے کم وبیش سبھی ہوائی جہاز کمپنیوں نے کرایوں میں اچانک اضافہ کردیا۔ پارلیمنٹ میں بھی یہ معامہ اُٹھایاگیا اور حکومت سے مانگ کی گئی کہ وہ معاملہ جہاز ران کمپنیوں کے ساتھ اُٹھائے تاکہ شرح کرایوں کا مناسب تعین یقینی بنایاجاسکے۔ معاملہ کی صدائے باز گشت تو دور دور تک سنائی دی لیکن نہ شرح کرایہ میں کمی ہوئی اور نہ ہی ہوائی کمپنیوں نے اس مطالبے کی طرف کوئی خاص توجہ دی۔
ہوائی جہاز کی شرح کرایوں میںمعقولیت لانے کے مطالبات اس لئے کئے جاتے رہے تاکہ کشمیر کی سیاحت کو سنبھالاملے اور کشمیر آنے والے خواہش مند سیاح بھی اپنے اُوپر کوئی بوجھ محسوس نہ کرسکے۔لیکن منافع خوری کی دوڑ اور لت کچھ ایسی ہے کہ اس کے خلاف ہر بلند ہورہی آواز دب کر رہ جاتی ہے۔ اس ناجائز منافع خوری کے باوجود سیاح آرہے ہیں اور کشمیر کی سیاحت سے محظوظ ہورہے ہیں۔
لیکن ناجائز منافع خوری کی لت ہوائی کمپنیوں تک ہی محدود نہیں، کشمیرمیں سیاحت سے وابستہ مختلف سٹیک ہولڈر سالہاسال تک مسلسل سینہ کوبی کرتے رہے اور رونا بسورتے رہے جب سیاح نہیں آرہے تھے، وہ دہائی دے رہے ہیں کہ وہ بینکوں کے قرضوں کے بوجھ تلے دب رہے ہیں، فاقہ کشی کی حالت ہے، روزگارکاکوئی دوسرا بندوبست نہیں، لیکن یہ اُس تکلیف دہ مرحلے کو بھول گئے، جونہی محسوس کیا کہ بھاری تعداد میں سیاح واردِ کشمیر ہورہے ہیں ۔ پہلگام ، سرینگر ، سونہ مرگ ،گلمرگ اور دوسرے سیاحتی مقامات میںواقع ہوٹل والوںنے کمروں کی شرحوں میں ۴۰ اور ۸۰؍ فیصد کے درمیان اضافہ کرکے لٹیروں کی فہرست میں اپنا نام درج کرایا۔
سیاحوں کی جیبوں پڑ ڈاکے ڈال کر وقتی طور سے تو کچھ سرمایہ حاصل کیاجاسکتاہے لیکن یہ کشمیر کی سیاحت کی انڈسٹری کی بدنامی اور لٹیرانہ طرزعمل سے ہی عبارت کہلایاجاتارہے گا۔ اگر ہوائی کمپنیوں سے مطالبہ ہے کہ وہ شرح کرایوں میںمعقولیت لائیں تاکہ کشمیر کی سیاحت کی صنعت کو بڑھاوا ملے اور استحکام بھی حاصل ہو، اگراس مطالبے میںکوئی معقولیت ہے اور جواز ہے تو کشمیر میںواقع ہوٹل مالکان سے بھی یہ پوچھا جاسکتا ہے کہ کس اخلاقی وکٹ پر کھڑا ہوکر انہوںنے سیاحوں کی آمد آمد کے پیش نظر اپنے کمروں کی شرح کرایوں میں لگ بھگ ۸۰؍ فیصد تک اضافہ کردیا۔
بیشتر ہوٹل سرکاری زمینوں کی لیز پر قائم ہیں، مختلف معاملات کے تعلق سے حکومت سے مراعات بھی حاصل کررہے ہیں لیکن جب سیاحت کی صنعت کو مضبوط ومستحکم بنانے کی بات آتی ہے تو گردن موڑ دی جاتی ہے اور شکم پری کی غرض سے شرح کرایوں میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔
کشمیر میںخود کو ہوٹل کلب سے وابستہ معززین جتلانے والوں، جنہوںنے ابھی چند ہی روز قبل وزیراعظم نریندرمودی سے ملاقات کی اور اپنے مطالبات کو لے کر ایک تفصیلی میمورنڈم پیش کیا سے یہ پوچھاتوجاسکتا ہے کہ کیا اپنی اس حیثیت کی حدود حکومت سے مراعات حاصل کرنے اور اپنی لیز پر حاصل زمینوں کی لیز مدت میں مزید توسیع کرنے تک محدود ہے لیکن سیاحت کی صنعت کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنے اور اس حوالہ سے خواہش مند سیاحوں کو راحت دینے کیلئے نہیں، اپنے کارباری مفادات کا تحفظ ہر کاروباری کی خواہش ہے اور حق بھی جس سے انکار کی گنجائش نہیں لیکن اس کی آڑ میں ناجائز طریقہ کار اور بہت حدتک لٹیرانہ طرزعمل کشمیرکی شہرہ آفاق سیاحت کیلئے وقت آنے پر سم قاتل بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
کیا یہ ہوٹل کلب کے ذمہ داروں کا فرض اور ذمہ داری نہیں کہ وہ ۸۰؍ فیصد تک شرح کرایوں میں ہوٹل مالکان، جو بادی النظرمیں ہوٹل کلب سے وابستہ ہیں ، کو اس ناجائز منافع خوری سے باز نہیں رکھ سکتے، کیا اس کلب کاکوئی اخلاقی کردارنہیں ؟ یہ طریقہ کار اور طرزعمل منافقانہ ہے۔