کشمیری پنڈتوں کے ایک منفرد مذہبی تہوار ’ہیرت‘(شیوراتری) کی آمد آمد کے عین موقع پر لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا کا اعلان کہ بہت جلد کشمیری پنڈت اپنے آبائی وطن کو لوٹ آئینگے ترک سکونت اختیار کرچکے پنڈت برادری کیلئے راحت اور مسرت کا پیغام ہے اور ہونا بھی چاہئے۔
پنڈت برادری کی اکثریت کی یہ زبردست خواہش ہے کہ وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئیں لیکن کچھ وجوہات ان کی اس خواہش کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ کا موجب ہیں۔ رکاوٹوں کی تعداد کئی ہیں لیکن اِن رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ اس کیلئے خود حکومت اور اس کے چند متعلقہ ادارے جہاں ذمہ دار ہیں وہیں خود کشمیری پنڈتوں کی وہ تنظیمیں جو حالیہ برسوں کے دوران تشکیل پاتی رہی ہیں اور مختلف نظریات سے وابستہ ہوکر بانت بانت کی بولیاں بول کر فضا کو مکدر بھی بنارہی ہیں اور مشکلات بھی پیدا کررہی ہیں جبکہ کشمیر کی وادی میں بحیثیت مجموعی سول سوسائٹی بھی کوئی سنجیدہ اور عملی کردار ادانہ کرکے ایک ایسا رول اداکررہی ہے جس کو بعض مفاد پرست حلقے حوصلہ پاکر اور غلط تشریح کا جامہ پہنا کر نہ صرف کردار کشی کررہے ہیں بلکہ ’معاونتی‘ بھی خیال کرکے قرار دے رہے ہیں۔
گذرے تیس برسوں کے دوران حکومتی سطح پر پنڈتوں کی واپسی کے اعلانات کئے جاتے رہے ہیں اور اس مقصد کیلئے کچھ راستوں کی نشاندہی بھی کی جاتی رہی ہے ۔ لیکن جن راستوں کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے ان پر وادی کے اندر سے بھی منفی یا تنقیدی ردعمل سامنے آتارہاہے اور خود پنڈت برادری کی اکثریت بھی ان کو مختلف وجوہات کی بنا پر مسترد کرتی رہی ہے۔ اس طرح بحیثیت مجموعی پنڈتوں کی گھروں کو واپسی کی خواہش یا دیرینہ خواب کو طرح طرح کی اُلجھنوں میںمختلف حلقے ، سیاسی اور غیر سیاسی، اُلجھا اُلجھا کر اپنا اپنا الوسیدھا کرتے اور حقیر ترین سیاسی وغیر سیاسی مفادات حاصل کرنے کی بدبختانہ کوشش کررہے ہیں۔
ان چند خودساختہ لیڈروں کے بیانات کا حوالہ دے کرنہیں چاہتے کہ فضا کو مزید مکدر بنا کر الجھنوں کا نیا انبوہ کھڑا کیا جائے البتہ اس مخصوص مفادات کی حامل ذہنیت کی لیڈر شپ سے یہی توقع رکھیں گے کہ وہ پنڈت برادری کی اس کسمپرسی کو مزید سیاست زدہ نہ کریں بلکہ اپنے ہی فرقے میں موجود ان حساس اور ذمہ دار شخصیات کے ساتھ ہاتھ ملا کر باوقار واپسی کیلئے راہیں استوار کرنے میں اپنا ہاتھ بٹائیں۔
یہ کہنا غالبا بے جا نہ ہوگا کہ پنڈت برادری کی صفوں میں ایسے بہت سارے لوگ موجود ہیں جو مخلص ہیں جو کشمیریت کی روح کو گہرائیوں سے جانتے ہیں، جو اس حقیقت کا بھی فہم و ادراک رکھتے ہیں کشمیر ایک باغ کی مانند ہے جس باغ کا اصلی حسن اور رعنائیاں اس میں موجود مختلف انواع اقسام کے پھولوں اور پودوں سے ہے لیکن اس کا یہ حسن پنڈتوں کے بغیر ماند پڑا ہوا ہے البتہ ان کی واپسی سے ہی یہ اپنی اصلی صورت میں بحال ہوسکتا ہے ۔ انہیں یقین ہے کہ واپسی کی تمام راہیں کھلی ہیں اور دستیاب بھی ہیں، لیکن مقصد کو حاصل کرنے کیلئے پہل کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی صرف یہ ہے کہ یہ پہل نہیں ہورہی ہے کیونکہ کوئی پہلا قدم اُٹھانے کیلئے تیار ہے اور نہ ہی اُٹھانے میں کسی فریق کی جانب سے سنجیدگی نظرآرہی ہے۔
پھر اہم سوال یہ بھی ہے کہ فریق کون ہے؟ بُنیادی طور سے اس کے صرف دو ہی اصل فریق ہیں۔ اہل وادی اور ترک سکونت کر گئی پنڈت برادری… بے شک حکومت بھی ایک فریق ہے لیکن اُس کی اس فریقانہ حیثیت کو ثانوی درجہ حاصل ہے۔ اصل دو فریقوں کے درمیان معاملات طے پاجائیں تو حکومت کا کردار اور رول پھر سکیورٹی کے حوالہ سے اُبھرکرسامنے آجاتا ہے۔
دو فریقوں کے درمیان وہ کون سے معاملات ہیں جنہیں طے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالہ سے اپروچ میں حقیقت پسندانہ لچک اولین ترین شرط ہے۔ ماضی، ماضی ہے اس کی تلخ یادیں ذہنوں سے نہ مٹ سکتی ہیں اور نہ کوشش کے باوجود مٹائی جاسکتی ہیں۔ کوئی فریق یہ دعویٰ مسلسل کرتا رہے کہ وہ ہولوکاسٹ ایسی صورتحال کا نشانہ بنا، ہر فریق ایک دوسرے سے کہیںزیادہ ایسی ہی دلخراش صورتحال سے دوچار ہوتا چلا آرہا ہے ، خود سرکاری ریکارڈ گواہ ہے، ماضی کو یاد ماضی کے حوالہ کرکے حال اور مستقبل پر نگاہیں مرتکز رکھ کر بہت کچھ حاصل کیاجاسکتا ہے ، کشمیر کے اس مخصوص تیس سالہ منظرنامہ نے دونوں فرقوں کی نئی نسل (نئی پود) کو ذہنی، جسمانی ، تعلیمی اور روزگار کے حوالہ سے بھی بڑے پیمانے پر منفی طور سے متاثر کررکھا ہے، یہ عذاب اُس روح فرسا عذاب سے کہیں زیادہ ہے جس کا نشانہ دونوں فریق گذرے تیس برسوں کے دوران مختلف ماحول میں رہنے اور گذر بسر کرنے کے باوجود بنتے آرہے ہیں۔
اس تکلیف دہ صورتحال اور مشکلات سے چھٹکارا پانے کیلئے ضروری ہے کہ کشمیر کا پنڈت اور کشمیرکا مسلمان آپس میں بیٹھ کر خوشگوار اور اپنے ماضی کی دُکھ سکھ مل بیٹھ کر بانٹنے کی روایت کا اعادہ کرتے ہوئے اپنے مستقبل کو تلاش کریں ۔ یہ ایک ایسا آپشن ہے جس کا کوئی متبادل نہیں، لیکن جو لوگ باالخصوص وہ لوگ جو اپنی برادری کی واپسی کیلئے ٹرانزٹ رہائش کی دلیلیں پیش کررہے ہیں حقیقت میں وہ مفاد پرست ہیں اور اس نوعیت کی واپسی پر ان کا اصرار ان کے پوشیدہ حقیر مفادات سے عبارت ہے۔
گلے شکوے بھائیوں کے درمیان بھی ہوتے ہیں، ہمسایوں کے درمیان نہ ہوں یہ ممکنات میں نہیں۔ لیکن گلے شکوئوں کو بُنیاد بناکر اور انہیں ضد اور ہٹ دھرمی پر مبنی لکیر کھینچ کر میں نہ مانوں کا سا اپروچ بدبختانہ ہی تصور کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت کشمیرا پنی تاریخ کے ایک نازک مگر مشکل ترین دور سے گذر رہا ہے، طرح طرح کی مشکلات اور کھٹنائیوں کا سامنا ہے، ہزاروں پنڈت ملازمین اپنی تعیناتیوں کی جگہوں پر حاضر نہیں ہورہے ہیں اور اب کئی مہینوں سے تنخواہوں سے محروم ہیں جبکہ سراپا احتجاج بن کر مسلسل دھرنا پر بیٹھے ہیں، معاشرتی سطح پر پنڈت برادری بیک وقت کئی ایک سنگین نوعیت کے مسائل اور فکروں سے دوچار ہے، کچھ حساس طبقے اب کھل کر یہ اعتراف بھی کررہے ہیں کہ کشمیر کی یہ منفرد اور چھوٹی سی اقلیت کسی بڑے دریا کی نذر ہوکر تحلیل ہوتی جارہی ہے، اپنی برادری سے باہر کی شادیوں نے سنگین معاملات کو بھی جنم دے رکھا ہے۔ ایسی ہی بہت ساری مشکلات اور فکر مندیوں سے وادی کی مسلم اکثریت بھی جھوج رہی ہے۔
جہاں مسائل اورمعاملات کا حجم اور مستقبل کے حوالہ سے خدشات، وسوسے اور تحفظات کے ہمالیہ کھڑے نظرآرہے ہوں تو انہیں ایڈریس کرنے کیلئے سنجیدہ اور ذمہ دارانہ اقدامات اُٹھانے کی بجائے بے اعتنائی اور بے رُخی کو مجرمانہ ہی تصور کیاجانا چاہئے۔ یہ اسی بے اعتنائی اور غیر سنجیدہ طرز اپروچ کا براہ راست نتیجہ ہے کہ کشمیر اور کشمیر کے لوگ بلالحاظ طبقہ اور فرقہ خمیازہ بھگت رہا ہے، غالباً اسی بے اعتنائی او رغیر ذمہ دارانہ طرزعمل کو دیکھ اور محسو کرتے ہوئے کسی نے کہا ہے کہ :
’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات،
یایوں بھی :’لمحوں نے خطا کی صدیوں نے سزا پائی‘