اتوار, مئی 11, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

جماعت اسلامی کی قرق جائیدادیں

مقصد کیا تھا، مشن کیا تھا اورہدف کیا تھا؟

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2023-01-24
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

حکومت نے حالیہ چند ہفتوں کے دوران کشمیر میں جماعت اسلامی سے منسوب بہت ساری جائیدادیں جن میں کچھ عمارتیں، اراضی اور اثاثے شامل ہیںسربہ مہر کرکے بحق سرکار ضبظ کرلی ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ جائیدایں منی لانڈرنگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں معاونت کے طور استعمال میں لائی جاتی رہی ہیں۔ بہر حال جو جائیدادیں اب تک ضبط کی گئیں ہیں ان کے بارے میں جماعت اسلامی خاموش ہیں یا وہ لوگ بھی خاموش ہیں جن کی تحویل میں یہ تھیں۔
کیا واقعی یہ جائیدادیں اور اثاثے ممنوعہ جماعت اسلامی کی ہی ملکیت تھی یا جماعت سے وابستہ انفرادی حیثیت رکھتی تھی، اس بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اس حوالہ سے قانونی حیثیت کیا ہوگی اس بارے میں آنے والا وقت ہی کچھ روشنی ڈال سکے گا لیکن اصل سوال یہ ہے کہ اگرو اقعی یہ ضبط شدہ جائیدادیںاور املاک ممنوعہ جماعت اسلامی کی ہی ملکیت ہیں تو اتنی جائیدادوں او راثاثوں کو حاصل کرنے کا آخر مقصد کیاتھا؟ کیوں ایک نیم سیاسی مذہبی جماعت کو کشمیرکے طول وارض میں اتنے بڑے پیمانے پر اثاثوں اور جائیدادوں کا انبوہ کھڑا کرنے کی ضرورت پیش آئی اور اگر مقصد تھا تووہ کیا تھا اور کشمیر میں عوامی سطح پر اس مقصد کی علمیت آج تک کیوں نہیں! یہ بلاشبہ ایک معمہ ہے اور معمہ کے حوالہ سے سوال بھی۔
جماعت اسلامی کشمیر نے ۱۹۷۲ء میں عملاًکشمیر کی سیاست میں حصہ لیا اور کانگریس کی مدد سے اسمبلی کی چارنشستیں حاصل کیں۔ ۷۲ء سے ۸۷ ء تک کے سبھی ریاستی اسمبلی اور پارلیمنٹ کے انتخابات میں اس کے لیڈروں نے حصہ لیا، کامیابیاں بھی حاصل کرتے رہے اور شکست کا بھی سامنا کیا۔لیکن جو جائیدادیں او راثاثے حکومت نے حالیہ کچھ ہفتوں میں بحق سرکار ضبط کرلی ہیں وہ عوامی توقعات اور تصورات سے کہیں زیادہ ہیں ،کشمیر نشین کسی دوسری سیاسی پارٹی کے پاس غالباً اتنی بڑی تعداد اور حجم میں اثاثے اور جائیدادیں نہیں، البتہ نیشن کانفرنس کے پاس نوائے صبح کمپلکس اور کانگریس کے پاس خدمت کمپلکس کی صورت میں کچھ اثاثے ضرورنظرآرہے ہیں۔
نوائے صبح کمپلکس اُس اراضی پر تعمیر کیاگیا جوحکومت نے پارٹی کو لیز پر الاٹ کیا ہے، جبکہ خدمت کمپلکش کی تعمیر بھی اُس اراضی پر ہے جو کئی دہائیاں قبل اس پارٹی کو لیز پر الاٹ کی تھی ۔ اس مخصوص پس منظرمیں سوال تو بنتا ہے کہ آخر جماعت اسلامیت کیوں اتنی بڑی اور ہمالیائی حجم کی جائیدادیں اور اثاثے حاصل کرنے میں اپنی تمام تر توانائی صرف کرتی رہی! پھر جن لوگوں اور اداروں کے منتظمین کے پاس یہ جائیدادیں تھی بحق سرکار ضبطی کے بعد سے وہ خاموش ہیں، جو اس خدشہ کو تقویت پہنچا رہاہے کہ یہ جائیدادیں جماعت نے ہی حاصل کیں جبکہ ان کا اس پیمانے پر حصول بغیرکسی مشن، بغیر کسی مقصد، بغیرکسی ایجنڈا کے تو ہو نہیں سکتا! ان جائیدادوں کے حصول کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا، کس نے فراہم کیااور کیوں ؟ ان سوالات کا بھی جواب فی الحال تشنہ طلب ہی ہے۔
جہاں اتنے حجم کی جائیدادوں کا حصول کسی بڑے معمہ سے کم نہیں وہیں خود جماعت کا حالیہ کچھ دہائیوںکے دوران رول ،کردار ،نظریات ،عقائد وغیرہ کے تعلق سے بھی کچھ معمے ہیں۔ ایک مرحلہ پر جماعت اسلامی کشمیر کی لیڈر شپ مسلسل دعویٰ کرتی رہی کہ ان کی جماعت اسلامی کا کوئی بھی تعلق جماعت اسلامی پاکستان ، ہندوستان اور بنگلہ دیش سے نہیں ہے بلکہ وہ آزاد اور خودمختار حیثیت رکھتی ہے۔ جماعت ابتدائی دورمیں دعویٰ کرتی رہی کہ اس کا سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں کیونکہ اس کی حیثیت تبلیغی اور دعوتی ہے۔
کشمیر میں عسکریت نے سراُبھار ا تو پارٹی کی لیڈر شپ کے ایک حصے نے اس کی یہ کہکر مخالفت اور تنقید کی کہ یہ جہاد نہیں بلکہ فساد ہے ۔ لیکن اس موقف کو تبدیل کردیاگیا اور لیڈر شپ کے ایک حصے نے عسکریت کا راستہ اختیار کرلیا۔ اس وقت تک لبریشن فرنٹ نامی عسکری تنظیم اکیلے میدان میں تھی لیکن عسکری ونگ کا قیام عمل میں لایا گیا، اس طرح وہ دعویٰ کہ پارٹی عسکری راستے کو جہاد نہیں بلکہ فساد سمجھتی ہے سے دستبرداری کا اعلان کردیاگیا۔ باقی تاریخ کا حصہ ہے۔
یہی وہ مرحلہ تھا جس میں جائیدادوں، اراضیوں ، اثاثوں کے حصول کا دورشروع ہوا، لوگوں سے کہاگیا کہ وہ کشمیر سے ترک سکونت اختیار کررہے کشمیر ی پنڈتوں کی زمینوں اور جائیدادوں کو نہ خریدیں لیکن پارٹی سے وابستہ لوگ خود ان جائیدادوں اور اثاثوں کو اونے بونے داموں خریدتے رہے۔
بہرحال حکومت نے اب تک جو بھی جائیدادیں اور اراضیاں ضبط کرلی ہیں ان کے بارے میں ساری معلومات کی جانکاری حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ جائیدادیں کب سے ان کی زیر قبضہ یا زیر ملکیت چلی گئی اور اُس سے پہلے کن کی تحویل یا ملکیت میں تھی۔ سودوں کا حجم کیا تھا اور وہ کون لوگ اور ادارے اِن سارے معاملات میں بطور سہولیات کار کے رول اداکرتے رہے ہیں ۔ لیکن جو جائیدادیں اور اثاثے انفرادی سطح پر وراثت میں ملی ہیں یا نجی حیثیت میں حاصل کی ہیں ان کی واپسی کے بارے میں حکومت کو نظرثانی کرنی چاہئے۔
سیاست بُری چیز نہیں لیکن سیاست میں مقصدیت، شفافیت ،زمینی اور تاریخ حقائق ، لوگوں کی دیرینہ خواہشات اور آرزئوں کا عکس واحترام اور سب سے بڑھ کر نظریہ میں تواتراورتسلسل ہو تو کوئی بھی سیاست دان یا سیاسی پارٹی عوام کے دلوں کو مسخر کرکے انہیں اپنا ہمنوا اور ہم خیال بنانے میں کامیاب رہتی ہے لیکن جس سیاستدان اور سیاسی پارٹی میںیہ عنصر نہ ہوں بلکہ ذہن وباطن میں فساد ہو، زبان پر دکھاوے کی مگرشائستگی ہو تو وہ سیاست ریاکاری کے زمرے میںشمار کی جاتی ہے ۔ ان کا شمارہر معاشرے میں منافق کے طور کیاجاتاہے اور منافق کے طور ہی ان کی پہچان بن جاتی ہے۔ مثالوں کی کمی نہیں!
مرحوم شیخ محمدعبداللہ کشمیرکے قدآور سیاستدان تھے ، کوئی مانے یا نہ مانے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ اس منافقت اور ریاکاری کو بھانپ چکے تھے اور اس کے پس پردہ وہ مقاصد کو بھی جان چکے تھے، عوامی سطح پر بھی لوگوں کی اکثریت اس زمینی حقیقت کی علمیت رکھتی تھی کیونکہ ایک دور کشمیر کی معاشرتی اقدار پر کاری ضرب لگانے کی غرض سے وہ بھی آیا جب اس جماعت کی لیڈر شپ نے اپنے اراکین کو اس عہد بلکہ فتویٰ کا پابند بنا یاکہ وہ اپنی بیٹیوں کا نکاح کسی غیر جماعتی کے ساتھ نہیں ہونے دیں گے۔
بہرکیف وقت کو گذرنا ہے اور وقت گذرہی جاتاہے۔ بس تلخ و شیرین یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔ وہ پُرآشوب دوربھی گذر گیا، البتہ اُس دور اور دبدبہ سے وابستہ تلخ یادیں باقی ہیں ۔بحیثیت مجموعی اب تک جو جائیدادیں اور اثاثے بحق سرکار ضبط کرلی گئی ہیں ان کی مجموعی مالیت کا تخمینہ اربوں روپے ہوسکتا ہے۔ یہ ساری جائیدادیں کب تک حکومتی تحویل میں رکھی جائینگی یا مستقبل کے حوالہ سے حکومت ان کے بارے میں کیا فیصلہ کرسکتی ہے یہ ابھی واضح نہیں !!

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

… ایک امید !

Next Post

ہندوستانی پچوں پر آگر ‘ایکس فیکٹر’ ہو سکتا ہے: لیہمن

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اپنے آپ کو دیکھ اپنی قباکو بھی دیکھ 

2025-04-12
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

قومی دھارے سے ان کی وابستگی کا خیر مقدم 

2025-04-10
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

2025-04-09
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اختیارات اور فیصلہ سازی 

2025-04-06
اداریہ

وقف، حکومت کی جیت اپوزیشن کی شکست

2025-04-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اظہار لاتعلقی، قاتل معصوم تونہیں

2025-03-29
اداریہ

طفل سیاست کے یہ مجسمے

2025-03-27
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

اسمبلی سے واک آؤٹ لوگوں کے مسائل کا حل نہیں

2025-03-26
Next Post
ہندوستانی پچوں پر آگر ‘ایکس فیکٹر’ ہو سکتا ہے: لیہمن

ہندوستانی پچوں پر آگر 'ایکس فیکٹر' ہو سکتا ہے: لیہمن

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.